کراچی کے کوڑے اور سیلاب کی مثبت رپورٹنگ


کوئی بھی بڑا شہر اور اس کی معیشت اور انڈسٹری توانائی پر چلتے ہیں۔ توانائی کے اہم ذرائع میں کوئلہ، جوہری، ہوائی، شمسی اور آبی توانائی شامل ہیں۔ ڈیم اور آبی بجلی گھر پہاڑی علاقوں میں بنتے ہیں لیکن بدقسمتی سے منگھو پیر کی پہاڑیوں میں ڈیم بنانا کچھ مشکل ہے۔ ادھر بہت بڑے بڑے مگرمچھ بیٹھے ہیں۔

ہوائی میں بھی مسائل ہیں۔ پچھلے تیس چالیس برس سے کراچی کی ہوا خراب ہی رہتی ہے۔ اس کی توانائی بھی ویسی ہی سی مضر ہو گی جیسی ہوا ہے۔ شمسی توانائی کا بندوبست کریں تو سولر پلیٹیں بھائی لوگ چرا کر لے جاتے ہیں۔ یوں یہ طریقہ بھی قابل عمل نہیں ہے۔

کراچی میں جوہری بجلی گھر کئی عشروں سے موجود ہے لیکن جوہری توانائی پوری نہیں پڑ رہی۔ ویسے بھی اس کی ترقی سے مغربی ملک جل جاتے ہیں۔ کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کی جائے تو آلودگی بہت ہو گی۔ ویسے بھی پاکستانی کوئلے میں پانی نکل آیا ہے اور تیل عرب ادھار دینے سے انکاری ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی بہت مہنگا پڑتا ہے۔

اس لیے اب توانائی کے دیگر ذرائع پر فوکس کیا جا رہا ہے۔ چند برس سے کراچی میں بارش کے پانی کو حتی الامکان روک کر رکھا جانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ادھر کے عام گلی کوچوں میں بھی اس تندی و تیزی سے دریا چلتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ بندہ لیاری میں نہیں بلکہ ہنزہ میں بیٹھا ہے۔

اب اگلے مرحلے میں ادھر ٹربائن نصب کیے جائیں گے اور ان سے ہر محلہ رن آف دی ریور، یعنی دریا بھگاؤ بجلی پیدا کرے گا۔

اب کراچی والوں کو پانی دیکھنے کے لیے گلگت ہنزہ اور سوات وغیرہ جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جب جی چاہے باہر گلی میں نکل کر آبی وسائل سے کماحقہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ بلکہ حکومت نے کچھ علاقوں کی ڈیویلپمنٹ پر خاص توجہ دی ہے اور ادھر گھروں کے اندر بھی وافر مقدار میں پانی جمع کرنے کا بندوبست کر دیا ہے۔

کراچی میں ایک بزرگ توانائی کی لہریں بہریں دیکھتے ہوئے صحت بنا رہا ہے

ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہر انسان کو صحت مند رہنے کے لیے ورزش کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے کراچی کے حالات پچھلی حکومت نے اتنے زیادہ خراب کر دیے ہیں کہ چہل قدمی یا جاگنگ کے لیے باہر نکلنا صحت کے لیے نہایت مضر ہو گیا ہے۔ بندہ مسل بناتے بناتے جسم میں ایک دو اضافی اور قطعاً غیر ضروری سوراخ کروا سکتا ہے۔

ورزش کا دوسرا طریقہ تیراکی ہے۔ ورزش کے دوسرے طریقوں کے برخلاف اس سے پورے جسم کی سر سے پاؤں تلک مشقت ہوتی ہے۔ بلکہ بعضے تو بیرونی اعضا از قسم سر اور پاؤں کے علاوہ پھیپھڑوں میں پانی اتار کر جسم کے اندرونی اعضا کی اچھی ورزش بھی کر لیتے ہیں۔

بدقسمتی سے کراچی میں اچھے سوئمنگ پول نہیں ہیں اور جو ہیں ان کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ بہت کم لوگ اسے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اب حکومت نے ہر گلی کوچے میں پیراکی کے لیے مفت سوئمنگ پول مہیا کر دیے ہیں جس پر کراچی کے شہری سرتاپا تشکر کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس سے بحث نہیں کہ تصویر کیسی ہے۔ تجریدی آرٹ کو پرانے خیال کے لوگ برا سمجھتے تھے، اب اس کی قدر کی جاتی ہے۔

توانائی اور معاشی پالیسی کا دوسرا اہم عنصر کوڑا ہے۔ جب سائنس نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوڑا بہت بری چیز ہے۔ اس میں گندگی اتنی ہوتی ہے کہ بہت بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس قسم کے بہت سے توہمات کوڑے سے وابستہ تھے۔ اب کسی شہر کی ترقی کے لیے کوڑا بہت مفید عنصر قرار دیا جاتا ہے۔

اب جدید سائنس نے یہ ثابت کیا کہ کوڑے سے جسم کی امیونٹی بڑھتی ہے۔ گندے ماحول میں رہنے والوں کی قدرت ویکسی نیشن کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ کرونائی وبا میں صاف ستھرے یورپی اور امریکی مکھیوں کی طرح مرے لیکن کوڑے کو اپنی زندگی میں اہم مقام دینے والے ممالک میں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔

کراچی میں توانائی اور صحت کا ڈھیر

دوسری طرف اس کے معاشی پہلو بھی اہم ہیں۔ بے شمار خاندانوں کا رزق کوڑا چننے اور بیچنے سے وابستہ ہے۔ یہ لوگ پلاسٹک، دھات، شیشہ اور نہ جانے کیا کیا چن کر دوبارہ ری سائیکل کرتے ہیں۔

بلکہ عام پلاسٹک کیا اہم طبی آلات از قسم سرنج وغیرہ بھی کامیابی سے ری سائیکل کیے جاتے ہیں اور ایک مرتبہ استعمال کرنے کے بعد انہیں بلاوجہ ضائع نہیں کیا جاتا۔ اسی وجہ سے حکومت نے مغربی دباؤ پر الٹے سیدھے قوانین بنانے کے باوجود اس استعمال کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع دیا ہے۔

اس کے علاوہ اب کوڑے سے بجلی بھی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ ہمارے ہاں جتنا گند ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے نہایت اعتماد سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کئی سو برس تک ہمیں توانائی کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ سنہ 2040 میں جب عربوں اور ایرانیوں کا سارا تیل نکل جائے تو ہم انہیں بجلی ایکسپورٹ کر رہے ہوں۔

اس لیے میں قوم کو نصیحت کروں گا کہ وہ ففتھ جنریشن وار میں وطن عزیز کے دشمنوں کی باتوں میں نہ آئے کہ کراچی کو کوڑے اور سیلاب نے تباہ کر دیا ہے بلکہ اپنی حکومت پر بھرپور اعتماد کرے کہ یہ ملک کی ترقی کے لیے عموماً اور کراچی کی ترقی کے لیے خصوصاً اہم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے جو عام لوگوں کی فہم سے بالاتر ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar