’این آر او‘ تحریک انصاف کا اسم اعظم ہے


وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن نے سینیٹ میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو بلوں کی منظوری روک کر دراصل اپنے جرائم سے بچنے کے لئے ’این آر او‘ لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ دونوں بل جو قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے منظور ہوچکے ہیں، سینیٹ میں لیڈر آف دی ہاؤس ڈاکٹر شہزاد وسیم کے بعض ریمارکس کی وجہ سے پوزیشن نے منظور نہیں ہونے دیے۔ اس معمولی پارلیمانی ہزیمت پر وزیر اعظم نے متعدد ٹوئٹ پیغامات میں اپوزیشن کو شدید لفظوں میں ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ ’میں کسی قیمت پر این آر او نہیں دوں گا‘۔

این آر او کی گونج آج کابینہ کے اجلاس میں بھی سنائی دی جہاں وزیر اعظم عمران خان نے وزیر قانون فروغ نسیم اور مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو ہدایت کی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف کو ہر قیمت پر لندن سے واپس لانے کے لئے اقدامات کریں۔ کابینہ کے ایک ذریعہ نے ایک روزنامہ کو بتایا ہے کہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانے کے معاملہ پر توجہ مرکوز نہ کی جائے کیوں کہ ان کی واپسی سے حکومت کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کا اصرار تھا کہ وہ سیاست کے لئے بدعنوانوں کو کوئی رعایت نہیں دیں گے یعنی این آر او نہیں دیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ ’این آر او‘ عمران خان، تحریک انصاف اور حکومت کے لئے اسم اعظم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ جب کوئی مشکل پیش آئی ، این آر او نہ دینے کا نعرہ مستانہ بلند کرکے اسے حل کرلیا گیا۔

اس وقت ملک کو شکر کی قیمتوں میں اضافے اور گندم کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک میں گیہوں کی فصل کے تین ماہ کے اندر ہی اناج کی قلت کا شور بپا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں ایجنڈے کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا۔ گندم میں خود کفیل رہنے والے بلکہ برآمد کرنے والے ملک کی کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ گندم کی ’قلت‘ دور کرنے کے لئے 60 ہزار ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے جس کی پہلی کھیپ اسی ہفتے کے دوران پاکستان پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد امید ہے کہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت بھی کم ہوگی اور قلت بھی ختم ہوسکے گی۔  حکومت اور وزیر اعظم کے نزدیک آٹے ، چینی اور پیٹرول و بجلی کی مہنگائی کا قضیہ ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو این آر او نہ دینے کا اعلان مکرر کیا جائے تاکہ مہنگائی اور مشکلات میں گھرے عوام اپوزیشن لیڈروں کے انجام کے بارے میں سنسنی و ہیجان کا شکار رہیں۔ کیوں کی عمران خان انہیں این آر او نہیں دے گا۔ اسی لئے کابینہ سے لے کر سینیٹ اور پریس کانفرنس سے لے کر ٹوئٹ پیغامات تک میں این آر او نہ دینے کی گونج ہے۔ دیکھتے ہیں یہ اسم اعظم کب تک حکومت کی نااہلی اور بے عملی کے لئے سیاسی ڈھال کا کام کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم سے منسوب کیا گیا یہ دعویٰ غلط ہے کہ وہ کرپشن کے معاملہ پر سیاست نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ کہ انہوں نے بدعنوانی کو قابل فروخت ٹریڈ مارک اور پراڈکٹ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن بھی ہمارے نیک اور ایماندار وزیر اعظم کو مافیا کا سرپرست اور بدعنوانی کا سرغنہ قرار دینے لگی ہے۔ عمران خان نے 2012 سے اقتدار میں آنے کے لئے شروع ہونے والی جد و جہد سے لے کر حکومت میں دو سال گزارنے کے بعد بھی تسلسل سے بدعنوانی کو ایک نعرے کے طور پر بیچا ہے۔ ان الزامات کو اس قدر بے دردی سے استعمال کیا گیا ہے کہ یہ لفظ اپنے معنی کھو چکا ہے۔ خاص طور سے جس طرح موجودہ نیب اور اس کے چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ذریعے ملک سے بدعنوانی اور بدعنوانوں کا خاتمہ کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے، اس سے احتساب کا لفظ بھی بے وقعت ہو چکا ہے اور احتساب بیورو خوف کی بجائے مذاق بن کررہ گیا ہے۔ حکومت اس ناقص نظام کو تبدیل کرنے اور احتساب کو شفاف بنا کر اپوزیشن کا منہ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ نیب کی نااہلی اور اس کے چئیر مین کی ’اخلاق باختگی ‘کو سرکاری سرپرستی فراہم کی گئی ہے۔

اخلاق باختگی سخت لفظ ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں جب کوئی خاتون کسی ادارے کے اعلیٰ ترین افسر پر مخرب اخلاق حرکتوں کا الزام عائد کرے اور باکردار وزیر اعظم کی حکومت میں کوئی سرکاری ادارہ اس چیخ و پکار کا نوٹس لینے پر آمادہ نہ ہو تو اس صورت حال کو کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کرپشن کو سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کرنے والی حکومت اپنے سیاسی نعرے کو جائز قرار دینے کے لئے نیب کا استعمال کررہی ہے۔ نیب کی کارکردگی، ہتھکنڈوں اور طریقہ کار کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے درجنوں ریمارکس ریکارڈ پر ہیں۔ نیب ایک ایسا ادارہ ہے جو ملک کے کسی بھی شہری پر ’ معلوم وسائل سے زیادہ آمدنی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے ، اسے قید رکھ سکتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کی تنبیہ کے باوجود اپنا طریقہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہے۔

 لیکن نیب کے چئیرمین پر غیر اخلاقی حرکتوں کا الزام عائد ہوتا ہے تو ملک میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ کوئی سرکاری ادارہ ان الزامات کی تفتیش پر مامور نہیں ہوتا اور حکومت کے کسی نمائیندے کو یہ واضح کرنے کا شوق نہیں چراتا کہ ملک میں احتساب کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے نہ صرف نیب کو طاقت ور اور مضبوط کیاجائے گا بلکہ اس کی سربراہی بھی ایسے شخص کے سپرد ہونی چاہئے جس کا اپنا کردار بے داغ ہو۔ حیرت کا سبب ہے کہ جو الزامات ایک فرد کے ذاتی کردار پر عائد کئے گئے، ان کی وضاحت اور تردید کے لئے نیب کا نام استعمال ہؤا لیکن چئیر مین نیب کو اس پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ نیب کی ناقص کارکردگی، اس ادارے کے سیاسی استعمال اور مشکوک کردار کے حامل شخص کی سربراہی نے نیب کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم اور حکومت کے نمائیندے بار بار یہ اعلان کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔ یعنی سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے خاموش کروانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

یہ بات درجنوں بار کہی جا چکی ہے اور اب ملک کے ہر طبقہ فکر میں محسوس کیا جارہا ہے کہ پاکستان اس وقت جس شدید معاشی، سفارتی اور سیاسی بحران کا شکار ہے ، اس سے نمٹنے کے لئے وسیع تر اتفاق رائے اور سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ احتساب اور این آر او کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے حکومت سرکاری امور کی انجام دہی پر توجہ مبذول کرے اور انتظامی کوتاہیوں کو دور کیا جائے۔ اس کے برعکس صورت احوال یہ ہے کہ کابینہ کا جو رکن جتنی زور سے احتساب ہوکر رہے گا اور این آر او نہیں دیا جائے گا، کا نعرہ بلند کرتا ہے، اسے وزیر اعظم کی اتنی ہی قربت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی نجی ملاقاتوں اور کابینہ کے رسمی و غیر رسمی اجلاسوں میں امور حکومت ہر غور کی بجائے نعرے گونجتے دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب کو خود عمران خان نے تماشہ اور نااہلی کا استعارہ بنا دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان سے وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی ائیر لائن کی ساکھ کو تباہ کیا اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔ وزیر اعظم اپنی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کے بعد شیخی خوری کے مقابلہ میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ غلام سرور خان کا بیان غلط تھا اور اس کا بہت نقصان ہؤا۔ لیکن وزیر اعظم ایسے وزیر کی گوشمالی کرنے اور اسے کابینہ سے فارغ کرنے کی بجائے مستقل اس کی سرپرستی کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کے نزدیک رہنے والے ہر شخص کو یہ بات معلوم ہے کہ وہ اپنے سیاسی دشمنوں کی برائیاں سن کر خوش ہوتے ہیں۔ جو وزیر احتساب کرنے اور این آر او نہ دینے کا جتنا زور دار بیان دیتا ہے ، عمران خان کو وہ اتنا ہی وفادار اور قریبی محسوس ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے وزیر اطلاعات شبلی فراز احتساب بل میں اپوزیشن کی تجویز کردہ ترامیم کو ’این آر او‘ کی درخواست قرار دیتے ہیں اور گزشتہ روز غلام سرور خان 35 برس کے دوران ملک لوٹنے والوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ غلام سرور خان نے ستر کی بجائے پینتیس سال کا عدد استعمال کیا ہے۔ ان کے اس بیان کا نشانہ شریف اور زرداری خاندان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ پیا من بھائے کی مانند وزیر و مشیر وہی بیان دینے پر مامور ہیں جنہیں سن کر عمران خان کوتاہیوں کو اپنے مصاحبین کی اہلیت سمجھنے لگتے ہیں۔ جب ملک کی سیاست کا محور ایک نعرے کو بنا لیا جائے تو کسی بھی وزیر یا سرکاری اہلکار کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

این آر او سیاسی مصالحت کے اس آرڈی ننس کا مخفف ہے جسے پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی معاہدہ کے لئے جاری کیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس آرڈی ننس کو خلاف آئین قرار دے کر منسوخ کردیا تھا۔ تاہم عمران خان بدستور اس فرسودہ اور خلاف قانون قرار دیے گئے آرڈی ننس کا حوالہ دینے پر مصر ہیں۔ پرویز مشرف بااختیار فوجی حکمران ہونے کے باوجود اپنا جاری کردہ آرڈی ننس ملک میں نافذ نہیں کرواسکے۔ پارلیمنٹ کو جواب دہ عمران خان کیوں کر کوئی ایسا حکم جاری کرسکتے ہیں جس میں اپوزیشن لیڈروں پر عائد سنگین الزامات سے معافی دی جاسکے؟ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم این آر او نہیں دوں گا کی بجائے یہ کہا کریں کہ وہ این آر او دے نہیں سکتے۔

یہ عمران خان کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ ایسا کام نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کا اختیار ہی ان کے پاس نہیں ہے۔ لیکن انہیں لگتا ہے کہ این آر او نہ دینے کا نعرہ انہیں ناکامیوں کی گرداب سے صحیح سالم باہر نکال سکے گا۔ اس خام خیالی سے نجات حاصل کرنا وزیر اعظم اور حکومت کی بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali