”جلیبی بائی“ اور ”چپلی دراز“
عام تصور یہی ہے کہ تمام آلام و مصائب زندگی کے ساتھ منسوب ہوا کرتے ہیں اور سانس کی ڈور ٹوٹتے ہی انسان بھی مکت ہوجاتا ہے اور اس کے قائم کردہ تصورات و تشکیلات بھی زمانے کی نظر سے محو ہو جاتے ہیں۔ یہ تصور حال ہی میں ایک خوردنی تیل بنانے کی کمپنی نے اپنی اشتہاری مہم کے ذریعے خاک میں ملا دیا اور ایک ہی ہلے میں دو متوفین، یعنی حضرت امیر خسرو اور اردو کا جنازہ دوبارہ نکال دیا۔ آخر الذکر کے سلسلے میں احباب کی دھوم دھام کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔
زیربحث کمپنی اس سلسلے میں عادی مجرمان کے زمرے میں تو آتی ہی ہے، ”اشتہاری مجرم“ بھی ہے۔ چند برس قبل اسی کمپنی نے ایک اشتہار چلایا تھا، جس کا بنیادی نعرہ تھا ”کشمیر پر سودا؟ ہو ہی نہیں سکتا!“ یہ چونکہ کشمیر کی نقشہ پر فتح سے قبل کا دور تھا، اس لیے مطعون نہ ٹھہرا اور یوں ان تاجران ملک و ملت کا حوصلہ بڑھ گیا اور اب کی بار انہوں نے اردو زبان کی ترویج کی آڑ میں امیر خسرو جیسے درویش صفت شاعر کا کلام اپنے تیل کی کڑاھ میں جلیبی کی صورت میں تلوایا ہے اور لوگ باگ اسے خسرو ہی کے کلام سے مرصع کاغذوں میں لپیٹے، ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں اور ہر ایک دو ”دندی“ (بائٹ کا اردو ترجمہ ہو نہیں سکتا لہٰذا پنجابی سے گزارہ کیجئیے ) کے بعد اردو کی اس عظیم نشاۃ ثانیہ پر کمپنی ہذا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اردو کی اس جلیبی بائی درگت پر مبنی اشتہار کے مبصرین اور سراہنے والوں میں عدیم المثال شاعر ناصر کاظمی کے صاحبزادے باصر کاظمی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
جناب امیر خسرو کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ”خسرو نجام کے بل بل جائیے“ کو جلیبی کے بل میں تبدیل کر دیا جائے گا اور لڑکے، بالے گلیوں، بازاروں میں گاتے پھریں گے ؛
خسرو نجام کے بل بل جائیے
اردو جلیبیاں تل تل کھائیے
آج کل مسابقت کا دور ہے اور ہر بڑے، چھوٹے سے مقابلے کے لیے آستینیں الٹائے رکھنا ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے۔ کیا یہ ممکن تھا کہ ”افغان جلیبی“ کی ٹکر پر ہم اپنا کوئی ”لچ“ اور جلیبی نہ تلیں۔ سو اس چکر میں حضرت امیر خسرو بھی لپیٹے میں آ گئے۔
اذیت اور خفت بعد۔ از۔ مرگ کا ذکر چلا ہے تو تمغوں اور ایوارڈز کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ ہر معاشرہ اپنے تخلیق کاروں، فنکاروں، دانشوروں، اساتذہ، کھلاڑیوں نیز کسی بھی شعبہ زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو یاد رکھنا چاہتا ہے اور ان خدمات کے اعتراف میں قومی تمغے اور اعزازات دیے جاتے ہیں۔ ان کے حصول کے لیے بہت سے لوگ دوڑ دھوپ بھی کرتے ہیں اور بعضے با ضمیر لوگ حکومت یا ریاست سے کسی اخلاقی اور نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ملا ہوا تمغہ یا اعزاز احتجاج کے طور پر لوٹا بھی دیتے ہیں۔
احمد فراز صاحب شاندار آدمی تھے، فوجی آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے تمغہ ہلال امتیاز لوٹا دیا تھا۔ برا ہو گردش زمانہ کا، فراز صاحب کو امسال پھر ایک تمغہ چیپ دیا گیا ہے۔ تمغہ داغنے والوں نے فراز صاحب سے بالکل وہی سلوک کیا جو کہ جناب جون ایلیا کی فرضی محبوبہ نے ان کے ساتھ کیا تھا، گویا؛
کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں
فراز صاحب اب اس دنیا میں موجود تو ہیں نہیں کہ تمغہ لینے سے انکار کردیتے یا مستقبل میں کسی مزید خرافات کے نتیجے میں واپس کر سکیں، کتنی بے بسی ہے، ایسے ہی مواقع کے لیے، حضرت بیدل فرما گئے ہیں کہ؛ ”رہائی نیست روشن طینتان را، از سیہ بختے“ (روشن ضمیروں کو سیہ بختی سے رہائی نہیں ملتی) ۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ فراز صاحب کے فکری اثاثے کو نہ سنبھالنے والے کم از کم تمغوں کو سنبھالیں گے اور ماضی کی طرح انہیں ڈاکو نہیں لے جائیں گے۔ مزید برآں یہ کہ آئندہ انہیں آسودہ خاک رہنے دیا جائے گا اور مستقبل کا کوئی تیلی اردو کی ترویج کی آڑ میں ان کے کلام کے پکوڑے تلنے کے بارے میں سوچے بھی نہ۔ ویسے ہمیں من حیث القوم اس نتیجے پر برسوں پہلے پہنچ جانا چاہیے تھا کہ تیل والے کسی کے دوست نہیں ہوتے۔
جلیبی، پکوڑے اور لچ، اتنی بہت سی تلی ہوئی چیزوں کے ذکر سے طبیعت بھاری تو ہو ہی چکی ہے، کیوں نہ کچھ ذکر ”چپلی دراز“ کا بھی ہو جائے۔ آپ کہیں گے چپلی کباب تو سنا تھا یہ چپلی دراز کیا بلا ہے؟ معاملہ یوں ہے کہ کوئی شخص یا معاملہ حد سے تجاوز کر جائے تو پنجابی میں اس کے لیے ایک اصطلاح ہے، ”ٹوٹا لتر“ یعنی جس طرح ٹوٹا ہوا یا پھٹا پرانا جوتا ہر سمت میں پھیلتا چلا جاتا ہے، اسی طور سے پھیلتے ہی جانا۔ اردو میں اسے ”پسرنا“ کہتے ہیں اور سندھی میں اسی حوالے سے ”پھشری“ سے مراد دادا گیری ہے، ویسے پھشری کا تیر بہ ہدف ترجمہ کراچی کی گلی گلوچ (یہ ہم نے اسٹریٹ لینگویج کا ترجمہ ایجاد کیا ہے ) میں ”حرائیں پن“ ہے۔ اسی مناسبت سے جس طرح بہت سے لوگ آپے سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، انہیں ٹوٹا لتر یا ”چپلی دراز“ بھی پکارا جا سکتا ہے۔
پس نوشت
ہمارے ایک دوست جن کا تعلق دختر رز سے بس اتنا ہی ہے جتنا ماہر خمریات ریاض خیر آبادی کا مگر نام مسرور ہے، ان کا شکریہ لازم ہے کہ انہوں نے ہماری توجہ اس اہم مسئلہ کی جانب مبذول کی اور متذکرہ اشتہار ہم سے سانجھ کر ہماری نیندیں حرام کیں۔ تاہم ”مکمل افشا“ یعنی فل ڈسکلوژر کے مفاد میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کی دھمکی، قطع نظر اس امر سے کہ آلات عقوبت سالم جوتے ہوں یا ٹوٹے ہوئے، راقم السطور کی جانب سے ان کے تمام کوائف کمال سرعت و چابک دستی سے ”حکام بالا بالا“ کو فراہم کرنے پر منتج ہوگی۔
- اکثر شب تنہائی میں - 09/10/2023
- ”جلیبی بائی“ اور ”چپلی دراز“ - 02/09/2020
- مرزا توشہ اور ماموں عوام - 18/08/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).