انڈیا کی روی داسی برادری: ’ہمارے پیغمبر، مقدس کتاب اور نشان سب الگ ہیں تو مذہب ایک کیوں‘


انڈیا میں آئندہ سال ہونے والی قومی مردم شماری سے قبل ’روی داسی‘ کمیونٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انھیں ایک علیحدہ مذہب تسلیم کرتے ہوئے اُن کے لیے مردم شماری کے فارم میں ایک الگ کالم اور یونیک کوڈ کا اہتمام کیا جائے تاکہ انھیں اپنا مذہب ہندو یا سکھ نہ لکھنا پڑے۔

روی داسیوں کی ملک گیر تنظیم ’آل انڈیا روی داس دھرم سنگٹھن‘ کے چیئرمین اور ڈیرہ سنت سروان داس کے گدی نشین سنت نرنجن داس نے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر یہ درخواست کی ہے۔

سنت نرنجن داس نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسا کرنا کروڑوں روی داسیوں کے حق میں ایک انقلابی قدم ہو گا۔ اُن کے مطابق روی داسی برادری ایک الگ مذہب کے ماننے والے ہیں، جو کہ سنت روی داس کو اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کی مذہبی کتاب بھی الگ ہے جسے ’امرت بانی گرو روی داس جی‘ کہا جاتا ہے۔

ہمارے پیغمبر، مقدس کتاب اور نشان الگ ہیں

واضح رہے کہ اِس عقیدے کو ماننے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق دلت برادری سے ہے جو انڈیا کی درج فہرست ذات میں (شیڈیولڈ کاسٹ) شمار کیے جاتے ہیں اور مذہبی طور پر انھیں ہندو یا سکھوں مذاہب کے پیروکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘ہم ہندو نہیں، ہمارا مذہب الگ ہے’

انڈیا میں ذات پات کا نظام کیا ہے؟

ایران کا پراسرار اور قدیم مذہبی فرقہ ’یارسان‘

آل انڈیا روی داس دھرم سنگٹھن کے قانونی مشیر اور ڈیرہ سنت سروان داس کے ترجمان ستپال وردی نے کہتے ہیں کہ ’ہم نے سنہ 2010 میں ہی اپنے علیحدہ مذہب کے پیروکار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ جب ہمارے پیغمبر الگ ہیں، ہماری مقدس کتاب الگ ہے، ہمارا نشان الگ ہے تو مردم شماری میں ہمارا اندراج کسی اور مذہب میں کیوں ہو؟‘

روی داس

ستپال وردی کے دعوے کے مطابق انڈیا میں سنت روی داس کے عقیدے پر عمل کرنے والوں کی تعداد 18 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

انڈیا کے علاوہ اس مذہب کے پیروکار دنیا کے بارہ ممالک میں موجود ہیں۔ روی داسیوں کی سب سے بڑی تعداد انڈین پنجاب کے دوآبہ علاقے میں مقیم ہے اور علیحدہ مذہب کا مطالبہ بھی زیادہ تر یہاں سے ہی کیا جا رہا ہے۔

انڈین پنجاب کے بعد اِن کی دوسری بڑی تعداد ریاست اتر پردیش میں موجود ہے۔ اس عقیدے کے ماننے والوں کی سب سے بڑی آبادی کا تعلق ’چمار‘ ذات سے ہے۔ چمار کے علاوہ دوسرے پیشوں جیسا کہ موچی، جاٹو، ریہگر وغیرہ برادریوں کے لوگ بھی اس عقیدہ کے ماننے والے ہیں، اور ان سب کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہے۔

یاد رہے کہ آبادی کے تناسب سے ملک میں سب سے زیادہ دلت ریاست پنجاب میں ہی مقیم ہیں اور دلتوں کی سب سے کامیاب سیاسی جماعت بہوجن سماج پارٹی (بی سی پی) کے بانی کانشی رام کا تعلق بھی یہیں سے تھا۔

تاہم مجموعی طور پر دلتوں کی سب سے بڑی آبادی اتر پردیش میں موجود ہے اور بی ایس پی ریاست اتر پردیش میں چار بار سیاسی رہنما مایاوتی کی قیادت میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ تاہم پنجاب اور دیگر ریاستوں میں تاحال اس جماعت کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

انڈیا کاسٹ سسٹم

انڈیا میں ذات پات کے نظام میں برہمن سب سے اوپر جبکہ دلت سب سے نچلے درجے کی ذات مانی جاتی ہے

صرف دلت ہی نہیں آدیواسی بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کا مطالبہ صرف انڈین پنجاب میں ہی نہیں بلکہ دوسری ریاستوں میں بھی ہو رہا ہے۔ اور ایسا کرنے والے صرف دلت برادری ہی سے نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں جیسا کہ جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ وغیرہ سے بھی اس طرح کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ دنوں جھارکھنڈ کے 32 آدیواسی گروپس نے اعلان کیا تھا کہ اگر آئندہ مردم شماری کے فارم میں اُن کے لیے ‘سرنا’ کے نام سے ایک علیحدہ کالم نہیں شامل کیا گیا تو وہ مردم شماری کا بائیکاٹ کریں گے۔

قبل ازیں گذشتہ برس ملک کی 19 ریاستوں کے آدیواسی باشندے اس مطالبے کے تحت دہلی میں پارلیمنٹ کے نزدیک جمع بھی ہوئے تھے۔

روی داسیوں کی ہی طرح آدیواسی طبقات کا بھی کہنا ہے کہ وہ ایک الگ مذہب کے ماننے والے ہیں اسی لیے مردم شماری کے فارم میں ان کے لیے علیحدہ کالم یا ’سرنا کوڈ‘ ہونا چاہیے۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ آزاد ہندوستان کی پہلے مردم شماری میں آدیواسی طبقات کے لیے مذہب کے زمرے میں ایک الگ کالم تھا جسے بعد میں ختم کر دیا گیا۔ اُن کا الزام ہے کہ ایسا کرنے سے آدیواسی طبقات کو کئی طرح کا نقصان ہوا ہے۔

آدیواسوں کے مذہبی رہنما اور اس تحریک سے وابستہ بندھن تگا نے بتایا کہ ’آدیواسوں کو ایک الگ مذہب تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہماری زبانوں، تہذیب اور ثقافت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہماری انفرادیت بھی گم ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے لوگ مذہب تبدیل کرنے پر بھی مجبور ہیں۔‘

BR Ambedkar

انڈیا کا آئین تحریر کرنے والے بی آر امبدھکر کا تعلق بھی دلت کمیونٹی سے تھا (فائل فوٹو)

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہمارا کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے بلکہ ہم ایک طویل عرصے سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے کہہ رہے ہیں کہ آدیواسوں کو ایک الگ مذہب کا درجہ دیا جائے تاکہ ہمارے لوگ کسی طرح کے شناختی بحران کا شکار نہ ہوں۔‘

علیحدہ کالم کے مطالبے کی اصل وجہ کیا ہے؟

ماہرین کا بھی خیال ہے کہ ان برادریوں کی طرف سے کوئی نیا یا بیجا مطالبہ نہیں ہے بلکہ آزاد انڈیا کی تاریخ میں ان کمیونٹیز کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

پنجاب اور سکھوں کے سماج و سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور ’پنجاب: جرنیز تھرو فالٹ لائنز‘ کے مصنف امن دیپ سندھو کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر یہ مساوات کی لڑائی ہے کیونکہ دوآبہ علاقے کے دلت ملک کے دوسرے علاقوں کے دلتوں سے معاشی طور پر بہتر ہیں اسی لیے وہ یہ آواز زیادہ موثر انداز میں اٹھا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دلتوں پر جس طرح کا تشدد ہوتا ہے، ان کو جس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں ان کا یہ رد عمل اور مطالبہ فطری معلوم ہوتا ہے۔‘

ستپال وردی نے بھی اپنی گفتگو میں اُن کی برادری کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی مذہب میں ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اب اپنے آپ کو مضبوط کریں گے تاکہ ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ ہو سکے۔ ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں۔ ہمیں بس برابری کا حق چاہیے۔‘

انڈیا

’سنہ 2018 میں دلتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے 43 ہزار سے زائد معاملات درج کیے گئے تھے جو کہ گذشتہ برس سے چھ فیصد زیادہ ہیں‘ (فائل فوٹو)

حکومتی ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 میں دلتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے 43 ہزار سے زائد معاملات درج کیے گئے تھے جو کہ گذشتہ برس سے چھ فیصد زیادہ ہیں۔

تاہم ماہرین خیال ہے کہ دلتوں پر ہونے والے تشدد کے معاملات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

این سی آر بی کی اسی رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں آدیواسوں کے قبائل کے خلاف ہونے والے تشدد کے آٹھ ہزار سے زائد کیس درج کیے گئے تھے، جو کہ گذشتہ برس کی بانسبت نو فیصد زیادہ ہیں۔

ملک میں آدیواسیوں کے حالات پر تحقیق کرنے والے اور ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز گوہاٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر جگن ناتھ امبا گڈیا کہتے ہیں کہ ’باوجود اس کے کہ ملک میں آدیواسیوں کے تحفظ و بہبود کے لیے خاص قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی صورتحال تشویشناک حد تک کم ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی دفعہ آدیواسیوں کو ان کے حقوق سے بیدخل کرنے کے لیے ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عیسائی ہیں تاکہ انھیں ایک قبائلی کو ملنے والی مخصوص سہولیات کا فائدہ نہ مل پائے۔ انھوں نے کہا کہ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ان پر تشدد بھی ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اگر آدیواسیوں کو علیحدہ مذہب تسلیم کر لیا جاتا ہے توحالات میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا ملک کی انتخابی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟ دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابی سیاست پر تو کوئی خاص اثر نہیں ہوگا تاہم اس سے مذہب کے نام پر ہونے والی سیاست کو ضرور نقصان پہنچے گا۔

انڈیا ذات پات کا سسٹم

امن دیپ سندھو کا خیال ہے کہ اس سے سکھوں کی مذہبی سیاست کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہیں کیونکہ اگر روی داسی کو ایک علیحدہ مذہب تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس کا امکان ہے کہ سکھوں کے دوسرے فرقے بھی اس طرز کا مطالبہ شروع کر دیں۔

سیاسی جماعتوں کا رد عمل

دوسری جانب اس معاملے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور جھارکھنڈ میں ’بی جے پی ٹرائبل سیل‘ کے سربراہ رام کمار پاہن کا دعویٰ ہے کہ تمام آدیواسی اس مطالبہ کے حق میں نہیں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت کو اس ضمن میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ایک ریفرنڈم کروانا چاہیے تاکہ اس کا پتہ چل سکے کہ کتنے آدیواسی اس کے حق میں ہیں اور کتنے نہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اور اُن کی پارٹی اس مطالبہ کے حق میں ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریفرنڈم میں اکثریت یہ طے کرتی ہے کہ ایسا ہونا چاہیے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ برس عام انتخابات سے قبل اس وقت بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت نے آدیواسوں کو ایک مذہب تسلیم کرنے اور ’سرنا کوڈ‘ کی سفارش کی تھی۔

دریں اثنا جھارکھنڈ کے وزیر خزانہ اور کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر رام ایشور نے گذشتہ نو اگست کو عالمی یوم آدیواسی کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں اُن کی پارٹی ریاستی اسمبلی میں اس مطالبہ کے حق میں ایک قرارداد پیش کرے گی اور ساتھ ہی اس مطالبہ کو مرکزی حکومت کے سامنے بھی پیش کرے گی۔

یاد رہے کہ نومبر 2000 میں برسوں کی جدوجہد کے بعد جھارکھنڈ ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ انڈیا میں آدیواسوں کی پہلی ریاست تھی کیونکہ اس کا مطالبہ کرنے والوں میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق آدیواسی کمیونٹی سے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp