یکساں نصاب تعلیم: تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی


ستر سالوں بعد قوم کو یہ خوش خبری سننے کو ملی ہے کہ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کو بدل کر یکساں نظام تعلیم رائج کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے، جس پر وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف بجا طور پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ یہ عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا، جسے عمران خان نے پورا کر دیا۔ پاکستان جہاں دیگر شعبوں میں حادثات کا شکار رہا ہے وہاں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر رہا۔

کہنے کو تو ہم ایک نظریاتی ملک ہیں لیکن یہاں نجی سطح پر ہر تعلیمی ادارے نے اپنا نصاب اور اپنا نظام تعلیم وضع کر رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں قوم کئی طبقات میں بٹی چلی جا رہی تھی۔ حال ہی میں پنجاب نصاب ساز ادارے نے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ایسی ایک سو کتب کی نشاندہی کی ہے، جس میں اسلام، پاکستان اور نظریہ پاکستان کی تضحیک کی گئی ہے۔ تعلیم مقصد سے زیادہ تجارت بنا دی گئی ہے اور غیر ملکی تعلیمی نیٹ ورک اضلاع کی سطح تک اپنی برانچیں قائم کرچکے ہیں۔ جو تعلیم کے نام پر اربوں روپے ماہانہ بٹورتے ہیں اور ہماری تہذیبی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں۔

موجودہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے پر ابتدائی تعلیم (پرائمری) کے لیے ذریعہ تعلیم قومی زبان اردو قرار دیا گیا ہے، جبکہ درمیانے (مڈل) ، ثانوی (میٹرک ) اور اعلیٰ ثانوی (انٹرمیڈیٹ) کے لیے ذریعہ تعلیم کا معاملہ ابھی حل طلب ہے۔ یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے تاہم ذریعہ تعلیم بھی اپنی اہمیت کے اعتبار سے اہم ترین پہلو ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ امر ثابت شدہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انگریزی پنپ نہیں سکی۔

دو سو سال سے انگریزی رٹنے کے باوجود پاکستانی سماج انگریزی زبان نہیں سیکھ سکا۔ بیس سال پہلے تک انگریزی مضمون چھٹی جماعت سے شروع ہوتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ تک سائنسی علوم بھی اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ اسی کی دہائی میں میٹرک سے ہی سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں دی جانے لگی۔ 2009 میں شہباز شریف نے اچانک پنجاب میں پہلی جماعت سے انگریزی میڈم نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی صوبہ خیبر پختونخوا نے بھی نظام تعلیم انگریزی میں منتقل کر دیا۔ کسی نے سوچا تک بھی نہیں کہ دیہی علاقوں میں انگریزی پڑھانے کے لیے نہ اساتذہ میسر ہیں اور نہ طلبہ کا انگریزی پڑھنے کا رجحان ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور کے پی کے میں اسی فیصد بچے فیل ہو گئے اور پھر پنجاب اور کے پی کے حکومتوں نے انگریزی میڈیم کو ختم کر کے اردو کو اختیار کر لیا۔

یکساں نصاب تعلیم کو رائج کرنے کے فیصلے کو ہر شعبہ زندگی نے سراہا ہے۔ یکساں نصاب اور نظام کے بارے میں ابھی کچھ پہلو وضاحت طلب ہیں، آیا یکساں نصاب صرف سرکاری اداروں میں لاگو ہو گا یا پرائیویٹ بالخصوص ملٹی نیشنل تعلیمی ادارے بھی اسے اختیار کرنے کے پابند ہوں گے۔ نیز مڈل اور بالائی سطح پر ذریعہ تعلیم کیا ہو گا؟ ابتدائی تعلیم (پرائمری ) کے لیے قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا ایک انقلابی قدم ہے اور وزیراعظم عمران خان جس تبدیلی کے علمبردار ہیں، یہ اس کی پہلی اینٹ ثابت ہوگی۔

اگر اعلیٰ تعلیم تک ذریعہ تعلیم قومی زبان اردو اختیار کی گئی تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اور ہم بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ ہماری پسماندگی کی اصل وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی ہے کیونکہ ہمارے طلبہ کا سارا وقت زبان سیکھنے میں ضائع ہوتا ہے اور علم حاصل نہیں کر پاتے۔ رٹے لگا کر بچے ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس نصاب کا دس فیصد بھی سمجھ نہیں پاتے۔ قومی زبان میں پڑھنے کے نتیجے میں انہیں جو تعلیم دی جائی گئی وہ اسے جذب کر لیں گے۔

اس لیے پرائمری کے بعد انگریزی کو اختیار کرنے کے بجائے قومی زبان کو ہی ذریعہ تعلیم بنانا چاہیے۔ انگریزی کو پہلی جماعت سے لازمی مضمون کے طور پر اختیار کرنا بچوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ انگریزی کو ایک زبان کے طور میٹرک یا ایف اے کے بعد پڑھانا چاہیے یا اسے مڈل سطح پر اختیاری مضمون کے طور پر رکھنا چاہیے تاکہ جو بچے انگریزی زبان میں جانا چاہیں، ان کے لیے مواقع میسر رہیں۔

ہمیں انگریزی زبان پر فوکس کرنے کے بجائے ذریعہ تعلیم اردو قرار دیتے ہوئے چینی، ترکی، فارسی، عربی اور مقامی زبان میں مہارت کے لیے ہر جامعہ میں انتظام کرنا چاہیے۔ مستقبل میں ہمارا واسطہ انگریزوں سے زیادہ چینی، ایرانی، افغانی، ترکستانی، ترکی اور عربی ممالک سے پڑے گا۔ اس لیے انگریزی کے پیچھے دوڑنے کے بجائے خطے میں نئے امکانات کے مطابق دیگر زبانوں کو سکھانے پر توجہ دینی چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان کو یکساں نصاب رائج کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے متوجہ کرنا چاہوں گا کہ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی مضمون کی شرط ختم کرتے ہوئے پہلی سے پی ایچ ڈی تک سارے علوم قومی زبان اردو میں پڑھانے کا اہتمام کریں، قوم آپ کا یہ احسان قیامت تک یاد رکھے گی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور ان کے متعلقین کی طرف سے یکساں نصاب تعلیم پر تبصرے حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ یہی جماعتیں ماضی میں طبقاتی نظام تعلیم اور انگریزی میڈیم کی چوکیداری کرتی رہی ہیں۔ انہیں موجودہ حکومت کے اس تاریخی فیصلے کی تائید کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).