کراچی کی بحالی کا منصوبہ یا سیاسی دنگل


وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کی بحالی کے لئے 1100 ارب روپے کے ایک منصوبہ کا اعلان کیا ہے جس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر وسائل فراہم کریں گی۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے کہ نالوں اور پانی کے بہاؤ والے راستوں پر بننے والی آبادیوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو وہ متبادل رہائش فراہم کرے گی۔ یہ ایک خوش آئیند اعلان ہے لیکن وزیر اعظم کے وزیروں اور مشیروں نے اس اعلان سے پہلے اور بعد میں جس طرح سیاسی بیان بازی کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس کی روشنی میں یہ منصوبہ بھی ماضی کے اعلانات کی طرح اخباروں اور ٹی وی خبروں کے ریکارڈ میں محفوظ ہو کر رہ جائے گا۔

حالیہ بارشوں نے کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں نکاسی آب کے ناقص نظام اور کسی آسمانی آفت کی صورت میں پیش آنے والی مشکلات میں شہریوں کی امداد کے انتظامات کا پول کھول کے رکھ دیا ہے۔ تاہم یہ عجوبہ پہلی بار نہیں ہؤا ہے بلکہ ہر سال بارشوں اور سیلاب کے سیزن میں اسی قسم کے المناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ جن میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کا کوئی مناسب بند وبست نہیں ہوتا۔

ایسے میں اگر وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہوں تو الزام تراشی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس ہنگامے میں مسائل حل کرنے کے متعدد اعلان ہوتے ہیں لیکن ڈھاک کے تین پات کی طرح پاکستانی عوام سال ہا سال سے رات گئی بات گئی کی مانند حکومتوں کے وعدوں اور مصائب کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر آنے والے وقت میں مسائل و مصائب میں سامنا ہورہاہے۔

موسم کی شدت کا تعلق دنیا بھر میں سامنے آنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ ماہرین عرصہ دراز سے درجہ حرارت میں اضافہ کے بارے میں متنبہ کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ طوفانوں اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوگا۔ اس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جسے موسمی تبدیلیوں کی مشکلات کا شدت سے سامنا بھی ہے لیکن وہاں ماحولیات کے حوالے سے شعور بھی نہیں ہے۔ عمران خان درخت لگاؤ مہم کے ذریعے اس بارے میں بات کرتے رہے ہیں اور گزشتہ مدت میں انہوں نے خیبر پختون خوا میں درخت لگانے کی مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔ اسی قسم کی مہم اب ملک بھر میں شروع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن صرف درخت لگانے کی مہمات ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کافی نہیں ہیں جن کا اس وقت یا آنے والے برسوں میں پاکستان کو سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں اہم ترین مسئلہ عوام میں ماحولیات کے بارے میں بنیادی شعور کی کمی ہے۔

پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن انفرادی سطح پر اس کی بچت اور قومی سطح پر ترسیل آب کے بہتر نظام کا کوئی منصوبہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اسی طرح عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کا استعمال اور اس سے بنے ہوئے شاپرز کو بے دردی سے گلیوں، نالیوں اور شہروں میں پھینکنے سے ایک طرف نکاسی آب کا نظام متاثر ہوتا ہے تو دوسری طرف اس سے صحت کے متعدد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ابھی تک ملک میں پلاسٹک کے خلاف کوئی مہم شروع نہیں کی جاسکی۔

دنیا کے متعدد ترقی یافتہ ملکوں میں پلاسٹک کی بجائے کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کا رواج فروغ پارہا ہے۔ حالانکہ ان سب ملکوں میں عوام کو پلاسٹک کی اشیا کو محفوظ طریقے سے ضائع کرنے کے بارے میں آگاہی بھی ہے اور وہاں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے اسے ری سائیکل کرنے کا انتظام بھی موجود ہے۔ پاکستان میں شعور کی کمی کے علاوہ کوڑا جمع کرنے اور اسے ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام بھی موجود نہیں ہے۔

موجودہ بارشوں سے جو مسائل خاص طور سے نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں ان میں شہروں میں نکاسی یا ڈرینیج کے مسائل کے علاوہ کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور اسے دوبارہ کام میں لانے کے منصوبوں کی شدید قلت سر فہرست ہے۔ بارشوں میں کراچی کے ڈوبنے کی واحد وجہ نالوں پر کچی آبادیاں ہی نہیں ہیں بلکہ شہر میں گزشتہ کئی برس سے کوڑا کرکٹ جمع کرنے اور اسے ماحول دوست طریقے سے کام میں لانے کے طریقہ کی شدید کمی بھی ہے۔ دنیا بھر میں کوڑا کرکٹ کو ماحول دوست انرجی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یا اسے صنعتی اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے شہر بھی صاف رہتے ہیں اور کوڑا کرکٹ کو دوبارہ کام میں لاکر ماحولیات کی بہتری کے لئے اقدام بھی ہوتے ہیں۔

کراچی میں شدید بارشوں سے جو مشکلات سامنے آئی ہیں، انہیں صرف کراچی سے مختص کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پاکستان کا کم و بیش ہر شہر ایسی ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اس مسئلہ کو اچانک اور ریکارڈ بارشوں کا عذر تراش کر بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے بارشوں یا طوفانوں کا سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔ اس کے لئے ایک طرف پاکستان اور ہر ملک کو ماحولیات کو بہتر بنانے کی عالمی مہم کا حصہ بننا ہوگا تو دوسری طرف عوام کو ایسی موسمی آفتوں سے بچانے کا ٹھوس انتظام بھی کرنا ہوگا۔ پاکستان کی حد تک شہروں کے حوالے سے منصوبہ بندی کے بغیر بڑھنے والی آبادیاں، منصوبہ بندی کی شدید کمی اور سول سہولیات کی قلت اہم ترین مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ مستقبل کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے کراچی سمیت کسی بھی شہر کا انتظام کرنے کا منصوبہ تیار نہیں کیا جاتا۔

حکومتوں اور بلدیاتی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شہروں کو اتنا ہی پھیلنے دیا جائے جتنی آبادی کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ممکن ہو۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن مواصلات، نکاسی آب، صاف پانی کی فراہمی اور دیگر سہولتوں کے انتظام کا معاملہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ جو لوگ شہر میں روزگار کے لئے آکر آباد ہوتے ہیں، وہ خود ہی اپنے رہنے اور دیگر ضروریات حاصل کرنے کا انتظام کرلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں پانی کے بہاؤ والے مقامات پر بستیاں آباد ہوچکی ہیں جنہیں ختم کرنا بجائے خود ایک اہم اور مشکل ترین مسئلہ بن چکا ہے۔ کوئی بھی شہر اتنی بڑی آبادی کا انتظام حکمرانی کے کسی مرکزی نظام سے نہیں چلاسکتا۔

اس کے لئے بدلیاتی نظام کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن قومی سیاسی تناظر میں کراچی کو پہلے الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم کے حوالے کردیا گیا اور ان کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے بعد کراچی سے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کے لئے رسہ کشی ہورہی ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے کراچی بحالی منصوبہ کے اعلان سے پہلے اور بعد میں وزیروں مشیروں کے بیانات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تحریک انصاف کراچی کے مصائب پر سیاست کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کسی بھی طرح پیپلز پارٹی کو کارنر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی لئے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے 1100 روپے کے پیکیج کا اعلان ہونے کے باوجود یہ وسائل یا تو فراہم نہیں ہوسکیں گے یا ان سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے جو اس بڑے شہر کی بنیادی مشکلات کو دور کرسکیں۔

عمران خان نے اپنی گفتگو میں ضرور یہ کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر کراچی بحالی کے منصوبہ پر کام کریں گی لیکن ان دونوں پارٹیوں کے درمیان سیاسی مخاصمت کی موجودہ فضا میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس منصوبہ کے لئے خود وزیر اعظم کے الفاظ میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں مل کر وسائل فراہم کریں گی اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی مل کر کام کریں گی۔ اسی مقصد کے لئے ’کراچی کمیٹی‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے جس کے اجلاس کی صدارت آج وزیر اعظم عمران خان نے کی۔ لیکن اس موقع پر وزیر اعظم کے ارد گرد وفاقی وزیروں اور نمائیندوں کا ہجوم تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو رسمی طور سے ساتھ ضرور بٹھایا گیا لیکن پریس کانفرنس میں انہیں اس منصوبہ کے بارے میں کوئی بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ حالانکہ سندھ حکومت اگر اس منصوبہ میں برابر کی شریک ہے تو وزیر اعظم کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی منصوبہ بندی اور انتظامی صورت حال کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔

وزیر اطلاعات اس دورہ میں وزیر اعظم کے ساتھ کراچی پہنچے تھے۔ لیکن اس سے پہلے ایک ٹوئٹ میں وہ اس دورہ کے اصل مقصد کا اظہار کرچکے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ ’کراچی پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے مسائل ہمارے مسائل ہیں۔ کراچی کے عوام کوسندھ حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے جنہوں نے 12 سالہ طویل اقتدار میں شہر قائد کو تباہ حال کیا۔ عمران خان کراچی کی رونقیں اور بطورصنعتی شہر حقیقی شناخت بحال کرنے کے لئے پرعزم ہیں‘۔

مسائل حل کرنے پر ’اجارہ داری‘ کے ایسے اعلان سے نہ اعتماد پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی مسائل حل ہوں گے۔ جب تعاون کا آغاز بداعتمادی کے اعلانات سے ہوگا تو اس عظیم منصوبہ پر کیسے عمل درآمد ممکن ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali