اندھا انصاف اور جادو کے کھیل


ٹریفک سارجنٹ عطا اللہ مرحوم کے ساتھ اس دنیا میں انصاف نہ ہو سکا، اُس دنیا میں ضرور ہو گا کیونکہ پاکستان جیسے ممالک میں سپاہیوں، کلرکوں، کوچوانوں، کسانوں اور دیگر افتادگان خاک کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔ یہاں کا جو نظام ہے وہ زر والوں، زور والوں، بڑے بڑے لٹیروں اور ڈاکوؤں کو ہی انصاف فراہم کرسکتا ہے لہٰذا غریبوں کے ساتھ آخرت میں ہی انصاف ہوسکتا ہے۔ عطا اللہ کے بھوکے ننگے بچوں کو چاہیے کہ وہ صبروشکر کر لیں اور انصاف کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائیں۔

جسٹس کھوسہ نے پانامہ کیس کے فیصلہ میں مشہور ناول گاڈ فادر میں بالزاک سے ماخوذ Epigraph کا حوالہ دیا تھا، “ہر خطیر دولت کے پیچھے ایک جرم پوشیدہ ہوتا ہے”۔ انہوں نے تو نوازشریف کو مجرم قرار دے دیا تھا لیکن باقی جج صاحبان نے معاملہ کی تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی قائم کرنے کا حکم صادر کیا تھا جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں احتساب عدالت نے نوازشریف سے لندن کی جائیدادوں کی خریداری کا منی ٹریل طلب کیا تھا یہ منی ٹریل فراہم کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے۔  اسی طرح کا منی ٹریل عمران خان سے بھی طلب کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے لندن کا فلیٹ اور بنی گالا کی 3 سو کنال زمین کہاں سے خریدی تھی۔

نوازشریف کے مقابلہ میں عمران خان نے نہایت قابلیت اور چابکدستی سے اپنا منی ٹریل فراہم کردیا تھا مثال کے طور پر انہوں نے لکھ کر دیا تھا کہ ان کی اہلیہ جمائما خان نے انہیں بنی گالا کی خریداری کے لئے قرض دیا تھا اور یہ قرض انہوں نے لندن کا فلیٹ بیچ کر واپس کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے پہلے برٹش آئل آف مین میں کمپنی رجسٹر کروائی تھی اور پھر اسی کے نام پر فلیٹ خریدا تھا تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے۔  نوازشریف نے بھی پہلے آف شور کمپنی قائم کی تھی اور اس کے ذریعے فلیٹ خریدے تھے لیکن عدالت نے عمران خان کے جواز اور منی ٹریل کو قبول کرلیا تھا جبکہ نوازشریف کے جواز اور منی ٹریل کو مسترد کردیا تھا۔

عدالت کے فیصلہ کے نیتجے میں عمران خان تخت پر جلوہ افروز ہوئے اور نوازشریف کو جیل جانا پڑا۔ 1990ء میں جب صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بینظیر کو برطرف کیا تو عدالت عظمیٰ نے اس فیصلہ کو جائز قراردیا تھا جبکہ اس عدالت نے 1993ء میں نوازشریف کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا تھا۔ ایک ہی طرح کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر محترمہ بینظیر نے کہا تھا کہ لاڑکانہ کے وزیراعظم کے لئے فیصلہ اور ہے، اور لاہور کے وزیراعظم کے لئے مختلف ہے

جب بینظیر کا مختلف عدالتوں میں ٹرائل ہورہا تھا تو انہوں نے ”کینگرو“ کورٹس کی اصطلاح استعمال کی تھی آج بچہ بچہ اس اصطلاح سے واقف ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے۔ ایک صادق اور امین چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تو عمران خان کو صادق اور امین بھی قرار دیا تھا حالانکہ عمران خان کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ایک دیومالائی کہانی معلوم ہوتی ہے ان کی ماضی بے شمار رنگین کرداروں سے آراستہ ہے لیکن یہ ان کی قسمت کہ اس کے باوجود وہ صادق اور امین ٹھہرے۔

لوگوں کو یاد ہوگا کہ شہبازشریف جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک جذباتی تقریر میں مائیک توڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹیں گے اور ان کا پیٹ چاک کرکے لوٹا ہوا مال باہر نکالیں گے۔ یہ مکافات عمل ہے کہ شہبازشریف  کراچی میں زرداری کے حضور حاضر ہوئے دوزانو ہوکر پرنام کیا اور اطلاعات کے مطابق، رخصت ہوتے ہوئے کان میں کہا کہ یار میں نے جو زیادتی کی ہے اس کی معافی دے دینا۔ اگر ان میں جرأت ہوتی تو یہ معافی سرعام مانگتے، کم از کم اپنے ساتھیوں کے سامنے مانگتے لیکن جرأت کم تھی اس لئے کان کے قریب جاکر معافی کے طلب گار ہوئے۔ مکافات عمل ہی نے شہبازشریف کو زرداری سے بھی بڑا چور اور لٹیرا ثابت کیا ہے آج تک وہ عدالتوں کو منی ٹریل پیش نہ کر سکے۔

منی لانڈرنگ 20 ویں صدی کی اصطلاح ہے لیکن ”منی ٹریل“ کو رائج ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور اس لفظ نے نائن الیون کے بعد زور پکڑا۔ ویسے تو پاکستان کے ہر اپوزیشن رہنما نے اپنے طور پر منی ٹریل دینے کی کوشش کی لیکن آج تک عدالتوں نے انہیں قبول نہیں کیا جب عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کا کیس سامنے آیا تو ایف بی آر نے منی ٹریل نہیں مانگا بلکہ جرمانہ عائد کردیا اور محترمہ یہ رقم ادا کرکے سرخ روہوئیں نہ نیب کامقدمہ نہ ایف آئی اے کی تحقیقات اور نہ ہی ایف بی آر کے نوٹس اگر ان پر بھی مقدمات ہوتے اور عدالتیں منی ٹریل طلب کرتیں تو یہ کم بخت منی ٹریل دینا بڑا مشکل ہوتا کیونکہ کاروبار کے بغیر جو پیسہ آئے اس کا کیا حساب دیاجا سکتا ہے۔

پاکستان میں جتنے سیاسی غیر سیاسی شخصیات نے اربوں کھربوں کمائے ہیں ان کا اصل زر بہت تھوڑا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک کے دولت مند ترین شخص بن گئے۔ مثال کے طور پر ملک ریاض کا اصل زر چند ہزار روپے تھا لیکن 30 سال کے عرصہ میں وہ کھربوں کے مالک بن گئے۔ میاں نوازشریف کا اصل زر تو ایک سائیکل کی قیمت کے برابر تھا لیکن ان کے والد نے بہت بڑی کاروباری سلطنت کھڑی کر دی۔ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے شہبازشریف کو والد سے گزارہ الاؤنس ملتا تھا لیکن وہ بھی 30 سال کے عرصہ میں کھرب پتی بن گئے، ان کا اصل زر تو تھا ہی نہیں۔ اسی طرح عمران خان کا اصل زر موجود ہی نہیں ہے۔ انہوں نے سرمایہ کے بغیر کاروبار نہیں، کام شروع کیا۔ آج وہ بنی گالا میں 3 سو کنال کے محل میں رہتے ہیں جو رائے ونڈ کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مکان ہے اس کے منیٹی نینس پر کروڑوں روپے ماہانہ خرچ آتا ہوگا ل یکن کاروبار کے بغیر وہ اس محل کو کامیابی کے ساتھ سنوار کے رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح زمان ٹاؤن لاہور میں ان کے آبائی گھر کے اخراجات بھی لاکھوں میں ہوں گے لیکن آمدنی کے ذرائع نہیں ہیں اور نہ ہی کسی ادارے نے منی ٹریل پوچھنے کی جسارت کی ہے۔ ان کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیرالتوا ہے، جب اس کا فیصلہ آئے گا تب شاید ان سے پوچھا جائے کہ اربوں روپے کہاں کہاں خرچ ہوئے۔

چونکہ یہ ڈیجیٹیل دور ہے اس لئے سوشل میڈیا کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک پرنٹ او الیکٹرانک میڈیا خاموش ہوں لیکن سوشل میڈیا اتنا شور مچاتا ہے اور ایسے سوالات پوچھتا ہے کہ عدالتیں اور وکیل بھی نہیں پوچھ سکتے۔  حال ہی میں جنرل عاصم سلیم کا معاملہ سامنے آیا ہے انہوں نے نہایت معصومیت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ ان کا اصل زر 19 ہزار ڈالر تھا جو 18 سال میں بڑھ کر 70 ملین ڈالر تک جا پہنچا ہے ویسے یہ کمال کی بات ہے کہ اتنے تھوڑے سے اصل زر کو اتنی توسیع دی جائے۔ معلوم نہیں کہ جنرل صاحب نے یہ بات مانی کیوں؟ کیونکہ ان سے پوچھنے والا تو کوئی نہیں تھا، وزیراعظم ان سے مطمئن تھے، کیس ایسا نہیں تھا کہ نیب دخل اندازی کرے، یہ ایف آئی اے اور ایف بی آر کے دائرہ اختیار سے بھی باہر تھا۔ پھر انہوں نے تردید اور وضاحت دینا کیوں ضروری سمجھا۔ جب بھی کسی معاملے کی تردید اور وضاحت آ جائے تو سوال پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں اور نتیجہ وہی ہوتا ہے جو پانامہ کیس کا ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).