نیا آرمی چیف اور بااختیار وزیراعظم


\"mujahidوزیراعظم میاں نواز شریف کی ہدایت پر صدر ممنون حسین نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور پاک فوج کے سربراہ کے طور پر بالترتیب لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو تعینات کیا ہے۔ ان دونوں افسروں کو جنرل کے عہدے پر ترقی دی جائے گی اور وہ منگل کو اپنے اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ اسی روز موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنے عہدوں سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگرچہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ سب سے سینئر سمجھا جاتا ہے تاہم ملکی سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کی وجہ سے فوج کے سربراہ کے عہدے پر سب کی نظریں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم بھی تقرری کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرنا چاہتا ہے کہ اس عہدہ پر مقرر ہونے والے جنرل کے سیاسی عزائم نہ ہوں۔ اس کے باوجود ماضی میں جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیشرو ایوب خان کو اقتدار ان کے حوالے کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے نہ صرف پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا بھی دی تھی۔ نواز شریف بھی پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کی غلطی پر پچھتاتے ہوں گے جنہوں نے 1999 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں 9 برس تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کا مجبور کیا تھا۔

پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری بہت انتظار کے بعد موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے صرف 3 روز قبل کی گئی ہے۔ موجودہ سال کے شروع میں ہی جنرل راحیل شریف نے ان افواہوں کی تردید کر دی تھی کہ وہ اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کے خواہاں ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ذریعے ایک پریس ریلیز میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے اور عہدے کی مدت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود پورے سال کے دوران اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تبصرہ نگاروں ، اینکرز اور مختلف سیاسی قائدین کی طرف سے نہ صرف یہ کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کے بارے میں پیش گوئیاں کی جاتی رہی تھیں بلکہ بعض مواقع پر تو یہ بھی بتایا جاتا رہا ہے کہ فوج کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ 2014 میں اسلام آباد میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنےکے دوران یہ صورتحال پیدا ہوئی تھی اور سیاست میں فوج کی مداخلت کا سنگین خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا۔ تاہم جنرل راحیل شریف نے ملک کی منتخب حکومت کی تائید کا سلسلہ جاری رکھا اور کسی مرحلہ پر یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ جمہوری نظام کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔ گزشتہ ماہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے بعد جب حکومت اور فوج کے درمیان چپقلش کھل کر سامنے آئی تھی تو بھی بعض عناصر جنرل راحیل شریف کو جمہوریت ختم کرنے پر اکساتے رہے تھے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کارروائی کے نتیجہ میں جنرل راحیل شریف کو ملک میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ وہ اپنے عہدے کی مدت کے دوران ملک کے مقبول ترین شخصیت کے منصب پر فائز رہے ہیں لیکن انہوں نے شہروں میں بینر لگنے اور مبصرین اور سیاسی عناصر کی حوصلہ افزائی کے باوجود اپنی حیثیت کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر کے اپنی عزت و وقار کو چار چاند لگائے ہیں۔

وزیراعظم نے نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہوئے اس باربھی سنیارٹی کو مدنظر رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ اگرچہ ملک میں یہ بحث کی جاتی رہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح فوج کے سربراہ کی تقرری کیلئے بھی سنیارٹی کے اصول کو بنیاد بنا لینا چاہئے۔ خاص طور سے پیپلز پارٹی کی طرف سے اس حوالے سے مطالبہ بھی سامنے آیا تھا لیکن موجودہ آئینی اصول کے تحت وزیراعظم اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کو پاک فوج کا سربراہ بنانے کا مجاز ہے۔ اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو پاک فوج کی کمان سونپی گئی ہے۔ ان سے سینئر دو لیفٹیننٹ جنرل نظر انداز کئے گئے ہیں۔ نئے آرمی چیف کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق وہ پروفیشنل سولجر ہیں، شہرت کے خواہاں نہیں ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا سہل ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کا خیال رکھنے والے مرنجاں مرنج شخص ہیں۔ ان کا فوجی تجربہ وسیع ہے اور یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی گوناں گوں صلاحیتوں کی وجہ سے پاک فوج کی کمان اعلیٰ طریقے سے کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ گو کہ جنرل راحیل شریف جیسے مقبول اور پرعزم کمانڈر کے بعد یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جائیں گی۔ تاہم یہ بات بھی قابل غور ہونی چاہئے کہ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ اگرچہ چیف کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ وہ اپنے پورے ادارے کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ آپریشن ضرب عضب جنرل راحیل شریف کی شاندار کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے یہ کامیابی اپنے افسروں اور سپاہیوں کے بے پناہ ایثار ، قربانیوں اور شجاعت کی وجہ سے حاصل کی تھی۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاک فوج کے نئے سربراہ کو بھی اپنی کمان میں آنے والی پوری فوج کا ویسا ہی تعاون حاصل نہ ہو۔

جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ایسے وقت میں پاک فوج کی کمان سنبھالیں گے جب ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایجنڈا ابھی نامکمل ہے تو دوسری طرف سرحدوں پر بھارت کی طرف سے بدترین جارحیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی وجہ سے بھارت بدحواس ہو کر لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس حوالے سے یہ ذکر بھی مناسب ہو گا کہ امریکہ میں نئے سال سے ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا عہدہ سنبھالیں گے جو مسلمانوں کے خلاف اپنے انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا آگے بڑھ کر ساتھ دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں پاکستان کو امریکہ کی طرف سے نئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوج کیلئے یہ نیا عالمی سیاسی گٹھ جوڑ خاص طور سے تشویش کا سبب ہو گا کیونکہ پاک فوج اور امریکہ کے درمیان طویل عرصہ سے تعاون و اشتراک کا تعلق استوار رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے اگر یہ تعاون فوری طور پر ختم ہوتا ہے تو ملک کی سیاسی قیادت کے علاوہ پاک فوج کو بھی نئی اور مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان حالات میں یہ ضروری ہوگا کہ ملک کی منتخب حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کا تاثر ختم ہو اور یہ دونوں ادارے تعاون اور مل جل کر کام کرنے کے ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ اس حوالے سے نئے آرمی چیف سے توقع کرنا بے حد ضروری ہے کہ وہ خارجی اور سلامتی کے امور میں رائے دینے اور حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کے علاوہ حکومت کو اپنا ماتحت اور زیر نگیں ادارہ سمجھنے کے رجحان کو تبدیل کریں گے۔ یہ توقع بھی بے وقت اور غیر اہم نہیں ہے کہ نئے فوجی سربراہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک کی پالیسی سازی کا اصل اختیار منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کو ہے۔ دیگر قومی اداروں کی طرح فوج بھی حکومت کی رہنمائی اور قیادت میں اپنے فرائض ادا کرنا ضروری سمجھے گی۔ اب اس طرز عمل کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے کہ قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے حوالے سے حکومت اور فوج علیحدہ علیحدہ موقف سامنے لائیں۔اہم خارجی معاملات میں فوج کی رائے بے حد اہمیت کی حامل ہو سکتی ہیں۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن ہر معاملہ میں فوج کو اپنی مرضی، منتخب حکومت پر مسلط کرنے کا رجحان تبدیل کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلی ماضی کے تجربات کی روشنی میں جتنی مشکل ہے اتنی ہی اہم بھی ہے۔ اگر نئے آرمی چیف مرحلہ وار حکومت کے ساتھ تعاون کے نئے دور کا آغاز کر سکیں تو وہ بھی ایک کامیاب اور مقبول جنرل کے طور پر تاریخ میں اپنا مقام بنا سکیں گے۔

اس بات میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ فوج کے نئے سربراہ کی تقرری کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ وزیراعظم کی نگرانی میں ایک آرمی چیف رخصت ہو رہے ہیں اور نئے آرمی چیف تقرری کے بعد منگل کو فوج کی کمان سنبھالنے والے ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ بلاشبہ اس تبدیلی سے مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی سیاسی حیثیت بھی مستحکم ہوئی ہے۔ جو عناصر مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ فوج نواز شریف کو برداشت نہیں کرے گی اور کسی بھی وقت انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑے گا، انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ نواز شریف اس وقت ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں۔ یہی قوت جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ان پر خصوصی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے۔ اب ان کے پاس بھی موقع ہو گا کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق ملک کے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ اس حیثیت کو اگر صرف مستقبل کے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا تو یہ نواز شریف اور اس ملک کی بہت بڑی بدنصیبی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments