جنرل قمر باجوہ، کیپٹن گنیش گورونگ کی نگاہ میں


\"usmanدوستو، صومالیہ کے کور دہ ”کسمایو“ سے مسافر کا آداب۔ خادم کو افریقہ کے اس جنگ زدہ ملک میں پہنچے تقریبا ایک ماہ ہونے کو آیا ہے، مگر صومالیہ اور اہل صومالیہ سے مس واجبی سے بھی کم ہو پایا ہے۔ اس کی وجہ یہاں کے مخدوش حالات، خصوصا شدت پسند تنظیم ”الشباب“ کی دہشت گرد کارروائیاں ہیں۔ اس سے قبل دار الحکومت مغادیشو میں ایک قلعہ بند احاطے میں وقت گذر رہا تھا۔ وہاں سے تقریبا ایک گھنٹے کی فضائی مسافت پر یہ دوسرا ساحلی شہر ہے جس میں ایک اور قلعہ بند احاطے میں، افریقی اتحاد کے سپاہیوں کے پہرے یا حفاظت میں دس دن گذرے۔ یہاں البتہ، زرہ بکتر پہن کر اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سوار ہو کر ایک مقام پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں سرحد پار سے لوٹنے والے صومالی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے تعاون سے بستی بسائی جا رہی ہے۔ سو اس ادھورے بلکہ براے نام دورے کا کیا حال احوال دیتے۔ بہر کیف، اس سرزمین کا دانا پانی بظاہر چند ماہ مقدر میں ہے، سو مزید جانکاری کی امید ہے۔ یہ تو تھا مدت سے غیر حاضری کا عذر لنگ۔

\"qamar-javed-bajwa3\"

ہمارے وطن بدر ہونے سے نجانے ان باتوں کا کیا تعلق ہے، مگر ایک جانب تو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے خلاف توقع انتخاب جیت لیا جس پر ہمارے کیمپ میں مقیم امریکی فوجی باقاعدہ اشکبار آنکھیں لئے ایک دوسرے سے تعزیت کرتے دکھائی دیے۔ کاسترو صاحب بھی گذر گئے۔ سپر مون کا نظارہ ہم نے مغادیشو میں بحر ہند کے جلو میں کیا اور اہل وطن آج کل طلوع ”قمر“ سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک چٹکلہ سنیے۔

آج کسمایو سے مغادیشو روانگی ہے۔ اس سلسلے میں ہوائی جہاز کے منتظم کیپٹن گنیش گورونگ صاحب کے پاس گیا جو نیپالی ہیں۔ انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ مبارک ہو۔ آپ کے نئے جرنیل صاحب اچھے آدمی ہیں۔ پوچھا کہ وہ کیسے؟

\"ganesh-gurung\"بتایا کہ وہ ان کے زیر کمان کانگو میں کام کر چکے ہیں۔ جہاں امن فوج کے کمان دار اعلی جنرل بکرم سنگھ تھے جو بعد میں بھارتیہ سینا کے سپہ سالار ہوئے۔ گنیش جی کے بقول انہیں باجوہ صاحب سے پہلے اور بعد میں کئی پاکستانی افسران کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا مگر یہ طبیعت، یار باشی، حس مزاح اور متانت میں سب سے بہتر تھے۔ ناپسندیدہ لوگوں میں ایک مشہور زمانہ سابقہ جنرل صاحب کا ذکر کیا، جن کے حوالے سے وطن میں میلوں، ٹھیلوں، دھرنوں وغیرہ سے شغف کی افواہیں عام ہیں۔ بقول گنیش جی، باجوہ صاحب اکثر و بیشتر ”دعوت“ کا اہتمام کرتے تھے جس میں خصوصا بھارتی ہم کاران کو بھی بلایا جاتا تھا۔ (اہل بلوچستان جانتے ہیں کہ ”دعوت“ اور ”خیرات“ میں کیا فرق ہوتا ہے)۔

باجوہ صاحب وہاں اپنے ہم قوم جاٹ افسران کے ساتھ لطائف کا بے تکلفانہ تبادلہ کیا کرتے تھے۔ اور اقوام متحدہ کے کام سے متعلق فرائض کی ادائی میں کبھی محسوس نہ ہونے دیا کہ ان کا افسر اعلی یا ان کے ماتحت کام کرنے والوں میں کچھ، ایک ایسے ملک سے ہیں جو باجوہ صاحب کے ہاں دشمن گردانا جاتا ہے۔ خادم نے گنیش جی سے پوچھا کہ ایک لفظ میں وہ باجوہ صاحب کو کیسے بیان کریں گے۔ بولے، ”فرسٹ ریٹ ڈپلومیٹ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments