ایک کروڑ نوکریاں اور اس کا حل



پاکستان کے ویسے تو ان گنت مسائل ہیں، مگر جو سب سے بڑا چیلنج موجودہ حکومت کو درپیش ہے وہ بیروزگاری ہے۔ جس کے متعلق محترم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے الیکشن کے دنوں میں فرمایا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ دو سال گزر گئے ہیں، ایک کروڑ نوکریاں تو نکلی ہیں، البتہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 20 لاکھ لوگ مزید بیروزگار ہو گئے ہیں۔ اس مسئلہ کا علاج بہت سادہ سے نسخہ میں پنہا ہے۔ اگر موجودہ حکومت عمل کرنا چاہے۔

یہ نسخہ کیمیا تمام ترقی یافتہ مغربی ممالک کا دریافت کردہ ہے، جس میں معاشرتی رویہ کی اصلاح پہلا قدم ہے۔ لوگوں کو باور کروانا پڑے گا کہ کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے والا شخص قابل عزت و احترام ہے۔ دوسری جس بات کی اصلاح کی ضرورت ہے وہ لوگوں کا حکومت سے سرکاری نوکری کی امید لگانا ہے۔ سرکار لوگوں کو اتنی نوکریاں نہیں دے سکتی۔ اس کے برعکس ہمیں لوگوں میں کاروبار کے رحجان کو فروغ دینا ہو گا تا کہ لوگ اپنے زور بازو پر کاروبار تشکیل دیں، اور نا صرف معیشت میں حصہ بقدر جثہ ڈال سکیں، نیز مزید لوگوں کو روزگار بھی فراہم کر سکیں۔

ان تمام اقدامات پر عملدرآمد کے لئے بچوں کو انجینئر، ڈاکٹر، اکاونٹنٹ اور سی ایس ایس کی دوڑ سے باہر نکالنا ہو گا۔ والدین پر قدغن لگانی ہو گی کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے کسی نامکمل خواب کی بھینٹ مت چڑھائیں۔ اگر آپ کے والدین کسی اچھے پیشے کا انتخاب نہیں کرسکے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی زندگی اجیرن کر دیں۔ اس فرمائشی پروگرام کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہر گھر میں انجینئر و ڈاکٹر بیروزگار ہیں۔

ہمیں اپنی تمام نجی و سرکاری جامعات کے کورسز کی از سر نو تشکیل کرنا پڑے گی۔ تمام جامعات کو کسی نا کسی صنعت سے منسلک Affiliate کرنا چاہیے۔ جامعات کو صنعتوں سے منسلک کرنے سے، انھیں ادراک ہو گا کہ صنعتوں کو کون سی سکلڈ لیبر ( ماہر مزدور یا ٹیکنیشن) یا ورک فورس چاہیے۔ اس کے علاوہ صنعتوں کو تعلیم و تحقیق میں بھی مدد مل سکے گی۔ اگر ہمارے جیسا ملک اپنے قلیل ترین وسائل سے ایٹم بم، ٹینک، اور فائٹر جیٹ بنا سکتا ہے، تو مقامی طور پر گاڑی، موبائل، فریج، ٹی وی، اور دیگر اشیاء کیوں نہیں۔

اس کے لئے صنعتیں طالب علموں کو 6 ماہ سے 1 سال تک کے پروٹو ٹائپ Prototype پراجیکٹ دیں، تاکہ وہ اس کا ڈیزائن مکمل کر سکیں اور اسے صنعتی طور پر پیداوار کے قابل بنا سکیں۔ اس سے نا صرف ورک فورس تیار ہو گی بلکہ مقامی صنعت کو بھی فروغ ملے گا اور درآمدات کم ہوں گی اور مستقبل میں برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ان نئی ایجادات کو بین الاقوامی معیار کے حساب سے تشکیل دینا پڑے گا، جس کے لئے پی سی ایس آئی آر اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مختلف سٹینڈر کی باڈیز بنانا پڑیں گی جو معیار اور ٹیسٹنگ کے اختیارات رکھ سکیں۔

تمام مقامی خرادیہ، ڈینٹنگ، پینٹنگ، پلمبنگ، الیکٹریشن، ویلڈنگ، کارپینٹر، فیبریکیٹر، مکینک، اور پائپ فٹر کی دکانوں کو ووکیشنل اداروں کے ساتھ الحاق کروایا جائے اور وزارت صنعت و پیدوار اور کامرس کے ذریعے ریگولارائز کرنا چاہیے۔ جس میں کاروبار کو ایک لائسنس نمبر دیا جائے اور اسے پابند کیا جائے کہ اس نے کم سے کم دو بچوں کی ٹریننگ (تربیت) کرنی ہے۔ اس کی اچھی مثال رزاق داود صاحب سے لی جا سکتی ہے، جنھوں نے انھی تمام کاموں کے لئے اپنی فیبریکیشن یارڈ کے ساتھ ووکیشنل ادارہ بنایا ہوا ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لئے اس طرح کی سکلڈ لیبر ( ماہر مزدوروں ) کی بہت ضرورت ہو گی، تا کہ منصوبے مکمل کیے جا سکیں۔

اس تمام سکلڈ لیبر ( ماہر مزدوروں ) کو لائسنس نمبر دیے جائیں، جس کی سالانہ فیس ہو، تاکہ حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو سکے اور لیبر کی تمام معلومات بھی وزارت محنت و افرادی قوت میں درج کی جا سکیں۔ تمام اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازموں کے لئے صحت کی بیمہ (انشورنس) پالیسی بھی لیں گے۔ جیسا کہ مشرق وسطی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قانون ہے، اس طرح حکومت کے لئے ان لوگوں کی صحت کا نظام بھی تشکیل دے دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).