اف یہ فلٹر زدہ ڈیجیٹل زندگی


یہ ڈیجیٹل دور ہے یہاں گھر میں ٹینڈے اور آلو بینگن کھانے کے بعد فیس بک پر بتایا جاتا ہے کہ میں نے فرائیڈ رائس ود پران اور الغم بلغم کے ساتھ کھایا ہے۔ پلاسٹک کا ڈنر سیٹ یا سٹیل کے برتن میں کوئی تصویر لگائی تو شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہر دوسرے دن پارکنگ میں کھڑی مہنگی گاڑی ساتھ سلفیاں بنانی ہیں کیونکہ جب تک اپنی امارت کا رعب نا ڈالا جائے کوئی عزت تو کرے گا نہیں؟

ہم سادہ طرز زندگی چھوڑ چکے ہیں۔ اپنے ہم زبان سے اپنی زبان میں بات کرتے شرم آتی ہے۔ مادری و قومی زبان میں بات کی تو بھلا رعب کیسے ڈالا جائے گا کہ جناب ہم نے یونیورسٹی سے ڈگری لی ہے۔ ڈگری بھلے 2 جی پی اے والی ہی کیوں نا ہو۔

آج سے نو دس سال پہلے 2 میگا پکسل والے موبائل کیمرے آئے تھے، نئی نئی فیس بک چلی تھی، اس وقت بیوٹی فلٹرز نہیں تھے، خوبصورت نظر آنے کے لیے یا تو خوبصورت ہونا لازم تھا یا پھر فوٹو جینک ہونا۔

آج دنیا ترقی کر چکی ہے، ایچ ڈی کیمرے اور بیوٹی فلٹرز کی بھرمار ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ میں خود کو حسین ترین ثابت کرنے کے لیے فلٹرز شدہ تصاویر بنوانے کا سب کو شوق پڑ گیا ہے۔

ٹی وی سکرین پر موجود میک اپ زدہ اور فاقہ زدہ حسن نے ہمیں اتنا دیوانہ کر دیا ہے، کہ ہم بھول جاتے ہیں ان کے اصل چہرے کیا ہیں۔ پرفیکٹ ”جا لائن“ ، صاف شفاف چہرہ، چمکتے دانت، تیکھے نین نقش، ملائم اور لمبے بال۔ میک اپ اور ایڈیٹنگ کی طاقت سے وہ جس حسن کا کامل نمونہ نظر آتے ہیں اسی حسن کو پانے کے چکر میں ہم اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

دل کے بہلانے کو خیال برا نہیں لیکن کہیں اس شوق میں ہم اپنے ہی ساتھ زیادتی تو نہیں کر رہے۔ ؟ ہم اپنی پہچان مٹا رہے ہیں۔ اتنا بھی مصنوعی زندگی کو کیا جینا کہ خود کو خود کے ہاتھوں ختم کیا جائے۔ ؟

ایک وقت تھا میں نے بھی بیوٹی ایپس ڈاؤنلوڈ کیں، لیکن جلد ہی مجھے سمجھ آ گئی کہ میرا چہرہ میری شناخت ہے، میرے حوصلے، ہمت اور ذہانت کی پہچان نہیں۔ آج میرے موبائل پر کیمرہ نارمل موڈ ہے۔ اب میں جیسی ہوں ویسی تصاویر بنوانا پسند کرتی ہوں۔ میں اس مصنوعی زندگی سے دور ہوں۔ کیونکہ میں نے خود سے محبت شروع کر دی ہے۔ میں نے اپنی زبان سے محبت شروع کر دی ہے۔ اپنے کلچر اپنے رسم و رواج سے محبت شروع کر دی ہے۔

میں آج شدت سے چاہتی ہوں کے اس دو چارپائیوں جتنے لان کی بجائے دس بارہ چارپائیوں والا پرانی طرز کا صحن ہو۔ کھلی ہوا آ رہی ہو۔ جہاں شام میں بیٹھ کر گپ شپ کی جائے۔ ایک پرانی طرز کا اوپن کچن بھی ہو جہاں پر اماں بیٹھی کھانا پکائے اور بچے چولہے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ میں اپنی زندگی سادگی سے جینا چاہتی ہوں۔

نا کسی کی زبان پر نا کسی کے مذہب پر بات کرنی ہے۔ لوگوں کو جینے دینا ہے۔ اور خود سے محبت کرنی ہے۔ لیکن ہم لوگوں کے سامنے اپنی عزت بنانے کے چکر میں مصنوعی زندگی جیے جاتے ہیں۔ جبکہ بھول جاتے ہیں و تعز من تشاء و تذل من تشاء۔

” محبت کے چالیس اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ خود سے محبت کی جائے، اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تم سے مختلف سلوک کریں تو تمھیں پہلے اپنے سے روا سلوک کو بدلنا ہو گا۔ جب تم خود سے پورے خلوص سے محبت نہیں کرو گے کوئی صورت نہیں کہ تم سے محبت کی جا سکے۔ اور جب تم اس مرتبے کو پہنچ جاؤ گے تو ہر اس کانٹے کے لیے شکر گزار ہونا جو تم پر پھینکا جائے۔ یہ علامت ہے کہ جلد تم پر گلاب بھی پھینکے جائیں گے۔ تم دوسروں کو اپنی بے عزتی کا الزام کیسے دے سکتے ہو جب تم خود کی ہی عزت نہیں کرتے نا ہی خود سے محبت کرتے ہو۔“
خود سے محبت کریں اور دنیا سے بھی۔ جئیں اور جینے دیں۔ زندگی جتنی سادہ ہو گی اتنی پرکشش ہو جائے گی۔ ڈگریاں، خوبصورتی، عہدے سب مٹی میں ہی مل جانے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).