کشمیر : موقف میں لچک اور غیر روایتی حل کے ضرورت


کشمیر، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک انتہائی سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پون صدی ہونے کے قریب ہے لیکن اس تنازعہ کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔

کانگریس نے آزادی سے پہلے ہی شیخ عبداللہ کے ساتھ ایک موثر تعلق قائم کر لیا تھا۔ چونکہ مسلم لیگ 1937 تک ایک فعال سیاسی جماعت نہیں تھی اس لئے مسلم لیگ کا کشمیر میں بھی کچھ زیادہ سیاسی اثر و رسوخ نہیں تھا۔

شیخ عبد اللہ نظریاتی طور پر کانگریس کے قریب تھے اور انہوں نے کبھی پاکستان کے قیام کی حمایت نہیں کی تھی۔ 1947 میں تقسیم کے وقت بھی وہ انڈیا کے ساتھ ہی رہنے کے حامی تھے اور دل چسپ امر یہ ہے کہ خود مسلم لیگ نے بھی اس وقت تک کبھی کشمیر کو پاکستان سے ملانے کی بات نہیں کی تھی۔ کسی بھی سیاسی اثر کے نہ ہونے کے باعث آزادی کے فوراً بعد پاکستان کے پاس کشمیر سے تعلق رکھنے کا کوئی سیاسی راستہ نہیں تھا۔ تا ہم بہت سے پاکستانی کشمیر کو پاکستان میں شامل دیکھنا چاہتے تھے۔

جب اس مسئلے پر تنازعہ شروع ہوا تو پاکستانی حکومت نے کشمیر کو پاکستان سے ملانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ نہ تو کشمیر کا راجہ اور نا ہی وزیر اعلی شیخ عبداللہ پاکستان سے الحاق کے حق میں تھے۔ سیاسی راستے مسدود ہونے کے باعث پاکستان نے کشمیر کو بذریعہ طاقت لینے کا فیصلہ کیا اور قبائلی لشکر اس مقصد کے لیے روانہ کر دیا گیا۔

قبائلی مداخلت کا جہاں پاکستان کو فوری فائدہ پہنچا وہیں شیخ عبداللہ بھی انڈیا میں کشمیر کی خصوصی اہمیت منوانے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور کشمیر کو ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت دی۔ وقت نے ثابت کیا یہ خصوصی اہمیت انڈیا کی ایک بڑی اکثریت کو پسند نہ آئی اور انہوں نے بعد میں سخت گیر رویہ اپنا لیا۔ بالآخر مودی سرکار نے ان دونوں حیثیتوں کو ختم کر دیا جس سے یہ مسئلہ ایک بالکل نیا رخ اختیار کر گیا۔

دوسری طرف پاکستان 1948 کے بعد سے آج تک کشمیر کے سیاسی حل سے کافی مایوس نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلح جدوجہد اور غیر سیاسی طریقہ کار بھی اچھے نتائج سامنے نہیں لا سکا ہے۔

آپریشن جبرالٹر، 1965 کی جنگ، سیاچن، 1989 میں افغان خانہ جنگی ختم ہونے بعد مجاہدین کا رخ کشمیر کی طرف موڑنا اور آخر میں کارگل جنگ میں بھی پاکستان کو مثبت کم منفی نتائج کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔

مجاہدین نے کشمیر میں ناکام ہونے کے بعد پاکستان کی اندرونی سیاست میں مسلح مداخلت شروع کردی۔ ان کے اندر سے طالبان کا عنصر ابھرا اور پاکستان میں بھیانک خودکش حملوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستان میں ستر ہزار سے زیادہ بے گناہ لوگ مارے گئے، پاکستانی فوج کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور طالبان دہشتگردوں کے حوالے سے پاکستان کو دنیا بھر شدید بدنامی بھی اٹھانی پڑی، ناکامی کا یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ آج پاکستان دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کی سفارتی حمایت سے بھی محروم ہو چکا ہے۔

بھارت نے بھی کبھی کشمیر کے بارے میں مستقل اور یکساں پالیسیوں پر عمل نہیں کیا۔ سات دہائیوں میں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول کے باوجود ہندوستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہت مواقع ضائع کر دیے۔ وہ کشمیر وادی میں اکثریتی فرقے کی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کے باعث اسے سیاسی عمل میں کوئی با معنی پیشرفت حاصل نہ ہو سکی اس کے علاوہ کشمیر میں مقامی مخالفت کو غیر موثر بنانے میں بھی ہندوستان کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی عملی طور پر فوج کے دائرہ کار میں ہے اور یہ مسئلہ پاکستان کی دفاعی، خارجہ بلکہ اندرونی پالیسی کا بھی بنیادی محور بن گیا ہے اور یہ بات تقریباً طے کر دی گئی ہے کہ جب تک یہ مسئلہ موجودہ شکل میں برقرار رہے گا دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کبھی بحال نہیں ہو سکیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستانی سیاستدان ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طاقت ور حلقوں میں سخت گیر رویہ رکھنے والے زیادہ مضبوط ہیں، وہ سیاسی حکومتوں کو کسی بھی با معنی پیش رفت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ مزاحمت کرنے والے سیاستدانوں کی تضحیک کرتے ہیں اور انہیں غدار تک کہلوا دیتے ہیں۔

اس طرح پڑوسی ملک سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کو سیاسی رہنماؤں کے لئے شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ امر بھی واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوری حل موجود نہیں ہے۔ پس پردہ سرگرم سفارت کار اور ماہرین مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کئی آپشن دیتے ہیں مگر ایک جامع اور تمام فریقین کے لیے قابل قبول منصفانہ حل کا اس وقت دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

ایسی صورتحال میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ باہمی اور متفقہ اقدامات کے ذریعے، موقف میں کچھ نرمی پیدا کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے تا کہ ایک طویل مدتی حل کے امکانات پیدا ہو سکیں اور سخت گیر مخالفین کو مہم جوئی کرنے کا زیادہ موقع نہ مل سکے۔

نواز شریف کے دوسرے دور حکومت اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں تمام فریقین کسی حد ایک متفقہ حل تک پہنچ چکے تھے یا پہنچنے والے تھے لیکن ان کے اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد مزید کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اور کشمیر پالیسی دوبارہ سخت مزاج عناصر کے ہاتھ میں رہ گئی۔ مستقبل میں بات چیت سے متفقہ حل کی کوئی صورت حال کیا دوبارہ پیدا سکتی ہے؟ کیا متعلقہ فریقین اب بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کر کے کسی غیر روایتی حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر آج غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).