دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیابی


\"amjad-ali-shakir\"

کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ ہم نے سرکاری سطح پر حب الوطنی کا ایک قومی بیانہ تشکیل دے رکھا ہے کہ برصغیری اسلام ایک سیاسی حقیقت تھا، قیام پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اتحاد عالم اسلام کا مرکز۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد قائدین نے عالم اسلام کا سفر کیا تاکہ قیام پاکستان کے مقصد کو اگے بڑھایا جائے۔ وہ لوگ کامیاب ہوئے یا ناکام، بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ حب الوطنی کی تعریف میں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ نظریاتی سرحدوں سے وفاداری اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 1979 ؑمیں افغانستان میں جہاد کی زمہ داری قبول کی۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین کی میزبانی کی اور نیلی سے کاشغر تک کے مسلمان پاکستان میں ایک مٹھی ہو رہے تھے۔ جہاد کے بعد یہ لوگ ایک ایک ہو گئے تو اس سے افغان جہاد کی فرضیت اور اہمیت کی نفی نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کا قیام قدرت حق کا کارنامہ ہے اور مملکت خداداد ہونے کی وجہ سے اس پر لازم ہے کہ تمام عالم پر اسلام کا جھنڈا لہرائے۔ اسی لیے کفر کی قوتیں روز اول سے ہی اس کی بربادی کے لیے سازشیں کر رہی ہیں۔ یہ سازش ہی تھی کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے جدا ہوا۔ اس سازش میں مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ، عوامی لیگی غدار اور ہندوستان شامل تھے جنھوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ اس میں ہماری بھی بعض غلطیاں ہو سکتی ہیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ ان کی اصلاح کی جائے۔ معمولی غلطیاں تو آخر بندہ بشر ہے، ہو ہی جاتی ہیں۔ہاں بھٹو کی تقریر بہت خطرناک تھی جس میں اس نے تو شاید نہیں کہا تھا اِدھر ہم ادھر تم، مگر روزنامہ آزاد نے سرخی جما دی۔ ظاہر ہے اس کی تقریر سے کچھ ایسا ہی متوقع تھا۔ بہر حال مشرقی پاکستان میں تو محبت کا زم زم بہ رہا تھا، ہمارے الطاف حسن قریشی خود دیکھ کر آئے تھے اور اردو ڈائجسٹ میں یہ لکھا بھی تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تینوں کردار مجیب، بھٹو اور اندرا گاندھی تو اگلے جہان سدھارے اب ہمارا جغرافیہ محفوظ ہے، صرف نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ضروری ہے۔ جنرل ضیاءالحق یہ کام کئی سال تک کرتے رہے۔ اب بھی یہی کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہم نے حب الوطنی کے سرکاری بیانیے کو کسی نہ کسی طرح پیش کرنے کی بری بھلی کوشش کی ہے۔ اب اس ذہنی چوکھٹے میں موجود صورتِ حال کی تقسیم کی جائے تو یقیناً نتائج کچھ ایسے برآمد ہوں گے کہ ہم سوچ کر خوش بھی ہوں گے اور مطمئن بھی۔ دہشت گردی کے واقعات پر دکھی ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ میڈیا کی حرکتیں لایعنی بلکہ ملک دشمنی محسوس ہو گی اور ٹی-وی چینل مرنے والوں کی میتوں اور لواحقین کے نوحوں کا منظر دکھاتے ہوئے دشمن ملک کی سازشوں کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔

پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اس پر لازم ہے کہ یہ دنیا بھر میں اسلام کے غلبے کے لیے کام کرے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان نے حاجی ضیاء الحق کے عہد دولت گستر میں افغان جہاد میں بھر پور حصہ لیا۔ دنیا بھر سے آنے والے جہادیوں اور افغانستان سے آنے والے مہاجروں کی میزبانی کی۔ ویسے بھی دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں کسی مسلمان سے یہ کیونکر پوچھا جا سکتا ہے کہ تم کس ملک سے آئے ہو اور تمھارا پاسپورٹ کس ملک کا ہے۔ مسلم قومیت کسی جغرافیے کی پابند تو ہے نہیں۔ اگرچہ اس سوال کا جواب دینا مشکل لگتا ہے کہ دو قومی نظریے کے لیے مشرقی سرحد قائم ہوئی تھی تو اسی نظریے کے فروغ کے لیے افغانستان اور ایران کے ساتھ لگنے والی سرحد کو اٹھا دیا جائے۔ ویسے نظریاتی آدمی کے لئے ہر سوال پر سوچنا مناسب نہیں ہے۔

جنرل ضیاءالحق کے عہد میں شروع ہونے والا جہاد جنرل پرویز مشرف کے عہد میں فساد کہلانے لگا۔اس فساد کو ہماری ہئیت مقتدرہ سے میڈیا تک سبھی لوگ دہشت گردی کہتے ہیں۔ عوام بھی دہشت گردی کہتے ہیں کیونکہ عوام تو وہی کچھ کہیں گے جو ہئیت مقتدرہ کہے گی۔ جن دنوں جہاد کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اب دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔ بات بھی سچ تھی اور یقین کے قابل بھی۔ امریکی سفیر تک مجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تھے۔ اب بھلا کون شک کرتا۔ سب کو بقین آگیا کہ اب نہ صرف کابل پر اسلام کا پرچم لہرئے گا۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی اسلام زندہ باد ہوگااور روس تو مجاہدین کے گھوڑوں کے سموں تلے ہوگا۔ آپ چاہیں تو ٹینکوں کے پہیوں کے نیچے کہ لیں۔ بہر حال امید واثق تک کہ سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کر امارت اسلامیہ بنے ہی بنے۔ پس وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں۔ کابل پر مجاہدین کے گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ یہ الگ بات کہ مجاہدین آپس میں پر سر پیکار تھے۔

ضیا الحق کے دنوں میں پاکستان میں اسلام کا دور دورہ تھا۔ ہر سو مجاہدین کے پرچم لہراتے تھے اور جہادی بزن بولتے پھر رہے تھے۔ کیا مجال تھی کہ کوئی انھیں ٹوکتا۔ حافظ سعید، مسعود اظہر، فضل الرحمٰن خلیل، میجر مست گل وغیرہ ہمارے قومی ہیرو بنتے بنتے رہ گئے۔ افغانستان میں برسراقتدار ٹولا اور ان کے حامی روسی کفار ومرتدین سب کیفرکردار کو پہنچے۔ سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ گیا۔ افغان مجاہدین کابل کی عہدیداری پر لڑنے مرنے لگےاور عالمی مجاہدین نیل سے کاشغر تک کو ایک کرنے کے لیے اگلے محاذوں پر چلے گئے۔ قریب تھا کہ دہلی نہ سہی، سری نگر ہی سرنگون ہو جاتا۔ سنکیانگ ہی دو قومی نظریہ قبول کر لیتا یا کم از کم چچینیا ہی کابل کا منظر پیش کرتا۔ خیر چھوٹے ہڑے منصوبے تو بہت تھے،کوئی ایک آدھ تو مکمل ہو ہی سکتا تھا۔ مجاہدین نے تو کارگل پر قبضہ کر لیا تھا، مگر نوازشریف کی بزدلی اور وطن دشمنی ملاحظہ کیجیے کہ جا کر امریکہ میں امن کی دہائی دیتا رہا اور جنگ بند کروا کر مجاہدین کا سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مشرف کو اسلام آباد کا کنٹرول سنبھالنا پڑا اور آٹھ نو سال حکومت کرنا پری۔

جنرل پرویرمشرف بھی زیادہ دیندار آدمی نہیں تھا۔ وہ جذبہ اسلام کے حوالے سے حاجی ضیاءالحق شہید سے بہت پیچھے تھا۔ اس نے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا نعرہ چک شہزاد کے فارم ہاؤس کے کسی درخت کے نیچے دبایا اور سب سے پہلے پاکستان کا سلوگن متعارف کرایا۔ اس نے حب الوطنی کا بیانیہ بدلنے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکا اور کرسی اقتدار سے الگ ہونے میں ہی عافیت جان کر روانہ ہوا۔ اس کے دور میں مجاہدین دہشت گرد بن گئےاور ان کی بندوقوں کا رخ ہماری طرف ہو گیا۔ افغان جنگ کے زمانے میں خان عبدالولی خاں کہا کرتا تھا کہ اگر مجاہدین کی بندوقوں کا رخ ہماری طرف ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔
وہ تو غدار تھا اور اس طرح کے سوالات اٹھاتا رہتا تھا۔ نظریاتی آدمی کو اس طرح کے سوالات کے جواب دینے کی ضرورت بھی کیا ہےاور ہر سوال کا جواب ضروری نہیں کہ موجود ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ بندہ ہر سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع کر دے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو اپنے سوالوں کا جواب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا۔ وہ نہ سہی ہم تو دیکھ ہی رہے ہیں اس کے سوال کا جواب۔ بڑا آیا ہمیں لاجواب کرنے والا۔

اب مجاہدیں تو رہے نہیں۔ وہ تو اس وقت پیدا ہوئے تھے جب سوویت یونین تھا۔ اب نہ سوویت یونین رہا نہ مجاہد رہے۔ جہاد کو گزرے اب دہائیاں بیت گئیں۔ مجاہدین تو دہشت گرد نہیں بنے۔ وہ تو اب بھی کہیں جہاد کر رہے ہوں گےاور ظاہر ہے جہاد کم از کم پاکستان میں ہو نہیں سکتا۔ ہہاں تو دہشت گرد ہیں۔ اب تو افغانستان میں بھی مجاہد نہیں پائے جاتے۔ ان دہشت گردوں کو انڈیا اور اس کی را منظم کر رہی ہے۔ ہمیں اپنی نظریاتی سرحدوں کو مضبوط بنانا چاہئے۔ اب ہم صرف نظریاتی لوگ ہی نہیں رہے، ہم ایٹمی قوت بھی ہیں۔ صرف خالی پیٹ والے ایٹمی قوت نہیں ہیں۔ اب ہم لوگ خوشحال ہونے والے ہیں۔ سی پیک خوشحالی بانٹنے والا منصوبہ مکمل ہو رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ نے کام شروع کر دیا ہے۔ کاشغر سے آنے والے تجارتی قافلے اب نیل تک جا سکتے ہیں۔ یہ قافلے جاتے آتے زرومال بکھیرتے ہوئے جائیں گے۔ جس طرف سے گزریں گے ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی۔ ہمارے نظریے، ہماری ایٹمی طاقت اور ہماری خوشحالی کے دشمن ہر وقت ہمارے خلاف سرگرم عمل ہیں،مگر ہم نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ وہ ٹوٹی کمر سے حملہ کرتے ہیں تو صرف بچاس ساٹھ کو ہی شہید کر سکتے ہیں اور ایک سو کے قریب زخمی کر سکتے ہیں۔ غور کرو اگر ان کی کمر مضبوط ہوتی تو وہ کیا کرتے۔ الامان والحفیظ۔ سوچو اور خوشیاں مناؤ کہ ٹوٹی کمر والے دہشت گردوں کی دہشت گردی فی مہینہ کافی کم ہو گئی ہے اور مرنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ آئیے اس کامرانی پر سجدہ شکر بجا لائیں اور خوشیاں منائیں کہ ہماری جغرافیائی سرحدیں ہی نہیں نظریاتی سرحدیں محفوظ ہیں۔ یہ دہشت گرد واقعات ہماری نظریاتی سرحدوں پر ہورہے ہیں۔ ان کی حفاظت بہر حال قربانی مانگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments