ہمارے بچے کہاں کھیلیں؟


\"Amjadجہاں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں ہسپتال ویران ہوتے ہیں لیکن شاید پاکستان میں یہ قول تھوڑا مختلف ہے۔ یہاں کھیل کے میدان غیر آباد ہیں اور نتیجے کے طور پر جرم کے میدان آباد ہیں۔

روہڑی، سکھر کی ایک تحصیل ہے جو کراچی سے پشاور مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ پاکستان ریلویز کا ایک اہم جنکشن ہے۔ یہاں مرکزی ریلوے لائن سے گزرنے والی تمام ٹرینں رکتی ہیں۔ 1887 میں تعمیر کیا گیا دریائے سندھ پر بنا ہوا ایک خوبصورت پل ایوب برج (لینس ڈاون پل) روہڑی کو سکھر سے ملاتا ہے۔ سہیل میمن کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ سہیل میمن بیڈ منٹن کے پروفیشنل پلئیر رہے ہیں اور انڈر 16 اور انڈر 18 پاکستان میں نیشنل لیول کے چیمپئن بھی رہے۔ سہیل میمن روہڑی میں واقع ایک اوپن ائیر بیڈ منٹن کورٹ میں کھیل کر پروان چڑھے اور اسی کورٹ سے کھیلتے کھیلتے انہوں نے کامیابی کی منزلیں طے کیں۔ سہیل کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سینئر صحافی بھی ہیں اور مختلف مقامی اور انٹرنیشنل اداروں میں صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سہیل نہ صرف اپنی صحافت بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کسی نہ کسی معاشرتی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں۔

اس سارے تعارف کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ دن ان کی فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں ایک ویران زدہ مقام کی تصویر لگی تھی۔ ان کے مطابق یہ اس اوپن ائیر بیڈمنٹن کورٹ کی تصویر ہے۔ جس میں انہوں نے دس سال تک پریکٹس کی اور ٹورنامنٹ کھیلے۔ 2006 تک سکھر ڈویژن میں بیڈ منٹن کے مقابلے اس کورٹ میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ ایک ایسا کھنڈر ہے جہاں ارد گرد کے شادی ہالوں کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ بیڈمنٹن کورٹ کو دوبارہ فعال بنانے کے لئے سہیل وزیر اعظم پاکستان سے لے کر سندھ حکومت اور مقامی اتھارٹیز کے ساتھ خط و کتابت کر چکے ہیں۔ لیکن تا حال جوابی خطوط کے علاوہ کوئی حوصلہ افزا ایکشن نہیں لیا جا سکا۔ سہیل کا سوال ہے کہ ان کے بچے کہاں کھیلیں۔ (خطوط کی کاپیاں دستیاب ہیں)

یہ صرف ایک روہڑی کا حال نہیں ہے۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ شہروں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ اور سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی نااہلی نے کھیلوں کے میدان ویران کر دیے ہیں۔ آج سے پندرہ یا بیس سال پہلے تک اگرچہ کھیل کے میدان بہت زیادہ نہیں تھے۔ لیکن بچوں اور نوجوانوں سے آباد ضرور تھے۔ کھیل کے میدان سکولوں کا اہم حصہ تھے۔ یونین کونسل سے لے کر صوبائی اور ملکی لیول پر ہر طرح کے کھلاڑی گلی محلے کے انہی میدانوں سے اٹھ کر کارہائے نمایاں سر انجام دیتے تھے۔ ایک طرف میدانوں کی کمیابی اور بے ڈھنگی معاشرتی ترقی نے کھیلوں کو نقصان پہنچایا اور دوسری طرف حکومتی سرپرستی نہ ہونے سے پہلے سے موجود میدانوں پر لینڈ مافیا اور کاروباری طبقے نے قبضہ کر لیا۔ اور جہاں کسی نے قبضہ نہ کیا وہاں ارد گرد کے لوگوں نے کھیل کے میدان کو ڈسٹ بن سمجھ کر کوڑے کے ڈھیر لگانا شروع کر دئے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ کئی میدانوں پر خود حکومتی اداروں نے قبضہ کر کے نوجوانوں کو کھیل سے محروم کر دیا۔ کراچی تا خیبر نوجوانوں کے مشاغل میں شاید جسمانی کھیل پہلی ترجیح نہیں ہے۔

2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد نہ صرف کھیلنے والے متاثر ہوئے بلکہ کھیل دیکھنے والے بھی شدید متاثر ہوئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کھیل کے میدان اور پارک ٹاؤن پلاننگ کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ اور شہری منصوبے بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کھیل کا میدان یا پارک تک بچوں کی پیدل رسائی ہو۔ بین الا قوامی سطح پر غیر نصابی سر گرمیوں پر یہ توجہ وہاں کے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ٹیلنٹ ہونے کے باوجود نہ مقامات میسر ہیں نہ مواقع۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان سپورٹس بورڈ کی ذمہ داری بین الصوبائی کوآرڈینیشن کی وزارت کے پاس ہے۔ جب کہ صوبے اپنے اپنے طور پر بھی نوجوانوں کے امور اور سپورٹس کے ذمہ دار ہیں۔ سندھ کے کھیل کے وزیر سردار محمد بخش خان مہر ہیں جو خود ایک نوجوان ہیں۔ امید ہے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کم از کم روہڑی کے اس کورٹ کی رونقیں ضرور بحال کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments