مری جو اک شہر تھا


یو ٹیوب پر تاکا جھانکی کا بھی اپنا مزہ ہے کہ کبھی کبھی بہت نایاب چیزیں مل جاتی ہیں۔ آج یہی کام کرتے ہوئے اپنے شہر مری کی ایک پرانی ویڈیو نظر آ گئی۔ ویڈیو تو اگر چہ چند منٹ کی تھی لیکن ہم جیسے ناسٹلجیا کے شکار لوگوں کو چند منٹ تو کیا چند پل ہی ماضی کے دھندلکوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ویڈیو میں نظر آتی پرانے مری کی مال روڈ کی خوبصورتی اور سادگی میری نسل کے نصیب میں تو اگر چہ نہیں تھی لیکن جو بدحال مری اب ہے اسی اور نوے کی دہائی میں یقیناً ایسا نہیں تھا۔

کرونا وبا کی تباہ کاریوں کے ہنگام اگر کوئی خیر کی خبر تھی تو وہ یہی تھی کہ ہمارے سیاحتی مقامات کچھ عرصے کے لیے سیاحوں کی دست برد سے محفوظ رہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران راقم کو مری جانے کا اتفاق ہوا تو مال روڈ پر معدودے چند لوگوں کو دیکھ کر گئی مری کے وہ مناظر یاد آ گئے جب سخت جاڑے کے موسم میں یہاں پر چند لوگ ہی پائے جاتے تھے۔ صاف ستھرا اور بارش میں بھیگا جی پی او جس کی سیڑھیوں پر عام حالات میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، آج وہاں چڑیاں اچھل کود کر رہی تھیں۔ آج ان خالی اور اداس سیڑھیوں نے میرے اندر بھی ایک اداسی بھر دی تھی۔ یوں لگا جیسے لمحۂ موجود نے میری انگلی پکڑی اور مجھے زمانوں پیچھے چھوڑ آیا جب آج سے تین دہائیاں قبل انہی سیڑھیوں سے میں اپنی نانی اماں کی انگلی پکڑے گزرا کرتا تھا۔ میں ان کے ساتھ ان کی پنشن لینے یہاں آیا کرتا تھا۔

سامنے سے گزرنے والے ٹرکوں کی آواز نے مجھے دوبارہ لمحۂ موجود میں لا کھڑا کیا۔ ان ٹرکوں پر تعمیرات کا سامان تھا کیونکہ مری کی بندش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یار لوگوں نے یہاں بہت سی نئی تعمیرات شروع کر دی ہیں۔ ابھی نجانے ہم نے مری کے چہرے کو اور کتنا خراب کرنا ہے۔ مری کی ہئیت تو پہلے ہی تبدیل ہو چکی ہے۔ میرے محترم بزرگ شفاعت احمد خان صاحب اکثر مجھے ساٹھ اور ستر کی دہائی کی مری کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ اس دور میں پورے ملک کی ہائی کلاس جینٹری (gentry) کی پہلی چوائس مری کی مال روڈ ہی ہوتی تھی اور مال روڈ پر نئے شادی شدہ جوڑے اس رومانویت زدہ ماحول میں اپنی زندگی کی حسین ترین شامیں بتاتے تھے اور رات گئے تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مال روڈ کے حسن میں اضافہ کرتے نظر آتے تھے۔

زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ مری کی طرف کشاں کشاں کھنچے چلے آتے تھے۔ بھٹو صاحب، نصرت بھٹو صاحبہ، مصطفیٰ کھر اور بہت سارے دوسرے سیاستدانوں کی یہ پسندیدہ جگہ ہوتی تھی۔ مال روڈ کا گرجا گھر یہاں کی خوشبوؤں کو معطر کیے رکھتا تھا۔ اب اس تاریخی چرچ کو سیکیورٹی کے نام پر لوہے کے بلند جنگلوں کے پیچھے قید کر دیا گیا ہے۔ چرچ کے سامنے جہاں آج کل جہاں ریڈ آنین نام کا ریستوران ہے وہاں کسی زمانے میں مری کی پہچان سامز (Sam ’s) ریستوران ہوتا تھا۔ سامز کی شامیں بہت مشہور تھی جب یہاں لائیو بینڈ کی موسیقی میں کپل ڈانس کیا کرتے تھے۔ کیسی آزادیاں میسر تھی اس دور میں۔ شاید اس وقت کا معاشرہ ابھی پوری طرح مسلمان نہیں ہوا تھا۔ دور ضیائیت میں پروان چڑھی ہماری نسل تو آج ان آزادیوں کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

مری کا ایک اور مشہور ریستوران لنٹاٹس (Lintott ’s) بھی ہوتا تھا اور یہاں بھی بڑے بڑے لوگ شام کی چائے پیتے اکثر پائے جاتے تھے۔ اگرچہ یہ ریستوران اب بھی موجود تو ہے لیکن بقول شکیب جلالی

مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں
افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی

مری کے ان مشہور ریستوران کے علاوہ انگریز دور کے بنے پرانے ہوٹل بھی یہاں کی خاص سوغات ہوتے تھے۔ جن میں برائٹ لینڈز، لاک ووڈ اور سیسل خاص طور پر اس زمانے کے لوگوں کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ سیسل ہوٹل کو تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے آفیشل مکان کی بھی حیثیت حاصل رہی۔ اسی سیسل ہوٹل میں لاتعداد پاکستانی فلموں کی شوٹنگ ہوتی رہی جن میں وحید مراد کی ارمان خاص طور پر شامل ہے۔ اگر چہ آج بھی ان ہوٹلوں کا نام تو موجود ہے مگر یہ گئے زمانوں کی مری کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے۔ مری کے مال پر واقع راجہ برادرز مری کا مشہور جنرل سٹور ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مری میں ایک سنیما گھر بھی تھا جو آج اپنا وجود کھو چکا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی اقبال میونسپل لائیبریری بھی ادبی ذوق رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔

چند سال قبل پنجاب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے مری کی نو تاریخی عمارات کی تعمیر نو اور ان کی اصل شکل میں بحالی کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ جن میں جی پی او، مری کے گرجا گھر، کانونٹ آف جیزس اینڈ میری سکول، برائٹ لینڈز ہوٹل، سیسل ہوٹل، اور لارنس کالج شامل ہیں۔ جی پی او عمارت کی بحالی کا کام تو گزشتہ حکومت کے دور میں مکمل ہو گیا تھا لیکن بقیہ عمارات کے بارے میں کچھ سننے میں نہیں آیا۔ اگر ہمیں ہوش کے ناخن کہیں سے ادھار مل جائیں تو ہم کالونیل دور کی ان خوبصورت باقیات کو ان کی پرانی شکل میں بحال کر کے اپنی اگلی نسل کو یہ اثاثہ منتقل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).