ریاستوں کی دوستی یا سربراہوں کی؟


\"amjad-ali-shakir\"راولپنڈی کی مری روڈ کا نام اس کے جغرافیائی حوالے سے رکھا گیا ہے۔ ہم دور رہنے والے لوگ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سڑک سیدھی مری کو جاتی ہو گی۔ پرانے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس کا نام سرکاری طور پر رضا شاہ پہلوی روڈ رکھا گیا تھا۔ ایک عرصہ یہی نام چلتا رہا۔ ایران میں انقلاب آیا تو بعض لوگوں نے سوچا کہ اب رضا شاہ پہلوی کو جناب خمینی صاحب نے ایران بدر کر کے ان کا منصب سنبھال لیا ہے یا ان کے منصب سے ملتا جلتا منصب سنبھال لیا ہے تو بعض لوگوں نے بعض جگہ رضا شاہ پہلوی کاٹ کر امام خمینی روڈ لکھ دیا، مگر عوام میں اس سڑک کا پرانا نام ہی معروف رہا۔ اب بھی یہی نام چلتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے رضا شاہ پہلوی کو خوش کرنے کے لیے اس کے نام سے سڑک کو منسوب کر دیا تھا اور یہ بھول گئے کہ اگر کبھی رضا شاہ پہلوی کو ایرانی عوام نے نکال دیا تو پھر کیا ہو گا۔ سڑک کا یہ نام دوستی کی بجائے نفرت کا حوالہ بن گیا تو پھر کیا ہو گا۔ عوام کی عقلمندی کو داد دیجیے کہ انھوں نے نفرت کے حوالے کو دفن کر دیا۔

ایک صری پہلے ترکی پر برا وقت آیا تھا۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں میں جہاں ترک اپنا خون بہا رہے تھے،ہمارے برصغیر کےمسلمان بھی اپنا خون جلا رہے تھے۔ علامہ اقبال جیسے شاعر نظمیں لکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر انصاری وفد لے کر ترکی پہنچے تھے کہ ترکوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔ یہاں سے کئی نوجوان ترکی کی طرف روانہ ہو گئے کہ ان کے ساتھ مل کر جہاد کر سکیں۔ ترکی خلافت کی حمایت میں چلنے والی تحریک ابھی تک ہمارے اجتماعی حافظے میں زندہ ہے۔ تحریک خلافت میں پڑھی جانے والی نظمیں ابھی تک ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہیں:

بولی بی اماں محمد علی کی                جان بیٹا خلافت پہ دے دو

یہ محبت اور عقیدت رائگاں نہیں رہی۔ ترکوں نے خلافت کو دفن کر دیا،مگر ہماری محبتوں کو یاد رکھا۔ یہ محبتیں کسی ایک جماعت کے لیے نہیں تھیں، ترکی کے لیے تھیں۔ چاہے خلیفہ ترکی ہو یا مصطفٰی کمال ہو،ہم ان سب سے محبت کرتے تھے کہ وہ ہمارے ترک بھائی ہیں:

مصطفٰی پاشا کمال وے تیری دور بلائیں        ترک بھی ہمیں برادر سمجھتے ہیں،ان کا شکریہ

1969ء میں ہماری  افواج اردن گئی تھیں۔ بظاہر اس کا مقصد تھا اردنی افواج کی ٹریننگ ۔ سربراہ تھے برگیڈیر ضیاءالحق ۔یہ برگیڈیر ضیاءالحق وہی ذات شریف تھے جنھیں بعد میں امیرالمومنین حاجی ضیاءالحق کے لقب سے پہچانا گیا۔ ان دنوں آپ جناب جس چوک میں مدفون ہیں، اسے جبڑا چوک کہا جاتا ہے، فلسطینیوں کی تاریخ میں بلیک ستمبر ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہےکہ اتنے فلسطینی تو اسرائیل نے نہیں مارےہوں گے جتنے پاکستان کے لوگوں نے بلیک ستمبر میں۔ فلسطین میں ہم بلیک ستمبر کے حوالے سے یاد رکھےجاتے ہیں، اردن سے بھی ہماری کوئی دانت کاٹے کی دوستی نہیں۔ ان زمانوں میں شاہ حسین کی دوستی کی خاطرہم فلسطین کی تاریخ میں بلیک ستمبر کا باب رقم کر کے اس کا حصہ ہو گئے۔ شاہ حسین کے ساتھ دوستی ماضی کا حصہ ہو گئی۔

لاہور میں ایک اسٹیڈیم ہے کہ نام اس کا لاہور اسٹیڈیم تھا۔ یہ نام اب تو میری عمر کے لوگوں کو بھی یاد نہیں ہو گا۔ قذافی لیبیا سے آئے تھے۔ ہم نے ان کےنام پر اس کا نام قذافی اسٹیڈیم رکھ دیا۔ خیر ہمارے نوجوان روزگار کمانے لیبیا جارہے تھے۔ انھیں آسانی ہو گئی۔ اب لیبیا ہے،مگر قذافی نہیں رہا۔ اب قذافی اسٹیڈیم کا نام لیبیا کے عوام یا حکومت سے ہماری کس دوستی کا حوالہ بن سکے گا۔۔۔۔ ذرا سوچیے۔

بنگلہ دیش میں ان دنوں عجیب صورت حال ہے۔ وہاں جماعت اسلامی کے لوگوں کو اس الزام میں سزائیں دی جا رہی ہیں کہ انھوں نے پاکستان افواج کی مدد کی تھی۔ سنا ہے کہ ہمارے دوست سلیم منصور خالد کی کتاب البدراستفاثے کی فائل کا حصہ ہے۔ سلیم منصور خالد نے یہ کتاب پاکستان میں بیٹھ کر لکھی تھی کہ یہاں کے لوگوں کو بتایا جائے کہ بنگال کی جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ کے لوگوں نے ڈٹ کر فوجی ایکشن کی حمایت کی تھی۔ مقصد تھا کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ کام الٹا ہو گیا۔ اب بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لوگوں کے خلاف خود ہی گواہ بن گئے ہیں۔ کتاب لکھتے ہوئے ہمارے دوست سلیم منصور خالد یہ سوچ لیتے کہ بنگلہ دیش کے عوام کے لیے یہ کتاب قابل قبول ہو گی اور بنگال کی جماعت اسلامی کے لوگوں کا یہ رویہ قابل قبول ہو گا تو یہ کتاب نا لکھتے۔ ان دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش میں ایک جماعت کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑا ہو جائے،مگر پاکستان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو راہا ہے کہ ملک صرف ملکوں اور قوموں سے دوستی کیا کرتے ہیں، کسی برسراقتدار جماعت یا حزب اختلاف کی جماعت سے دوستی نہیں کرتے۔

ان دنوں مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ اور خیبرپختون خواہ میں برسراقتدار جماعت پی-ٹی-آئی میں حماقتوں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ ترک صدر تشریف لائے تو اسلام آباد میں صرف مرکزی حکومت اور وزیراعلٰی بنجاب نے استقبال کیا۔ ترک صدر اسلام آباد اور لاہور تشریف لائے۔ ترک صدر کی خواہش پر فتح اللہ گولن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو سکول اور ملک چھوڈ کر چلے جانے کا نادر شاہی حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ترک پاکستان دوستی کہیں پیچھے رہ گئی ہے،رجب طیب اردوان اور شریف فیملی کی ذاتی دوستی کا سرکاری سطح پر جشن منایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے کہنے پر پی-ٹی-آئی کا دہلا دیکھیے کہ انھوں نے پارلیمنٹ سے ترک صدر کے خطاب پر بھی پارلیمنٹ میں جانا قبول نہیں کیا۔ گویا ترک صدر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ذاتی مہمان ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں حماقتوں کے مقابلے سے فارغ ہو لیں تو ان سے پوچھا جائے کہ حکمرانوں سے حکمراں کی ذاتی دوستیاں اتنی اہمیت نہیں رکھتیں جتنی ملکوں کی ملکوں سے۔ اگر ہماری دوستی ترکوں سے ہے تو اردوان کے کہنے پر گولن کی جماعت کے لوگوں کو دیس نکالا دینا چہ معنی وارد۔ کل کلاں گولن کے حامی برسراقتدار آگئے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں روس کی حمایت یافتہ حکومت تھی۔ ادھر حاجی ضیاءالحق کے کاندھے پر امریکا کا ہاتھ تھا۔ کئی سال جہاد ہوتا رہا۔ پھرروس کی حمایت یافتہ حکومت فارغ ہوئی ۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ پھر دہشت گردی ہونے لگی۔ پہلے افغانستان میں پھر پاکستان میں۔ اب دونوں ملکوں میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی کمر سلامت ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے۔ افغانستان میں برسراقتدار حکومت اور ان کے حامی پاکستان کے کتنے دوست ہیں۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ برسراقتدار حکومت سے برسرپیکار طالبان قطر مذاکرات کے بعد ہمارے کس قدر حامی رہ گئے ہیں۔اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ دوستی ملکوں سے ہوتی ہے، کسی برسراقتدار جماعت یا اس کے سربراہ سے یا برسرپیکار جماعت یا اس کے سربراہ سے نہیں ہوتی۔ ایسے ہی دشمنی بھی ملکوں سے ہوتی ہے،اس کی برسراقتدار جماعت یا برسرپیکار جماعت کے ساتھ یا ان کے سربراہوں سے نہیں ہوتی۔ ہمارے حکمرانوں نے یہ نیا چلن متعارف کرایا ہے کہ شاہوں ، شہزادوں، اور حکمرانوں سے دوستی کرتے ہیں۔ اسی لیے تو شاہ اور شہزادے آ رہے ہیں،ان سے دوستی بڑھ رہی ہے، ملکوں سے نہیں۔ اب بادشاہوں سے بھلا کون پوچھے کہ نازک مزاج شاہاں تاب سخن نادارند۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments