انور جلال شمزا: پاکستانی آرٹسٹ کے وہ دس فن پارے جنھیں حقیقی مالکان تک پہنچنے میں 35 برس لگے


یہ کہانی ہے برصغیر میں تجدیدی آرٹ کے بانیوں میں شامل انور جلال شمزا کے اُن دس فن پاروں کی جنھیں نمائش کی غرض سے سنہ 1985 میں برطانیہ سے پاکستان لایا گیا مگر اِن فن پاروں کو اُن کے اصل مالکان تک واپس پہنچانے میں 35 برس کا عرصہ لگا۔

انور جلال شمزا کی وفات کے بعد سنہ 1985 میں اُن کے فن پاروں کی سرکاری سطح پر پاکستان میں نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا اور اسی غرض سے یہ فن پارے برطانیہ سے پاکستان لائے گئے۔

شمزا کی وفات کے بعد ان فن پاروں کو پاکستان سے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ میں مقیم اُن کے اہلخانہ کو طویل قانونی اور سفارتی جنگ لڑنا پڑی۔

انور جلال شمزا کون تھے؟

تجدیدی آرٹ پر ڈاکٹریٹ کرنے والی ثمینہ اقبال، جو خود بھی ایک آرٹسٹ اور آرٹ کی تاریخ دان بھی ہیں، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انور جلال شمزا سے واقف لوگ زیادہ تر انھیں ایک مصور کے طور پر جانتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان پر ان کے لکھے بے شمار ڈرامے نشر ہو چکے ہیں اور وہ سات ناولوں کے مصنف اور پاکستان میں تجدیدی آرٹ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

شمزا ڈیزائنر بھی تھے اور سنہ 1964 میں بننے والے پاکستان کے معروف مشروب برانڈ ’شیزان‘ کا لوگو انور جلال شمزا نے ہی ڈیزائن کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’آئیں مل کر فن پارے تلاش کریں‘

بھارتی مصور کے فن پارے کی ریکارڈ قیمت میں نیلامی

اربوں پاؤنڈز کے فن پارے، ’محض تین فیصد نمائش پر‘

ثمینہ اقبال کے مطابق شمزا سنہ 1928 میں انڈین پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انور جلال شمزا کا تعلق قالین ساز خاندان سے تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے شمزا پنجاب یونیورسٹی سے فارسی اور فلسفے کے تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے مگر آرٹ کی طرف اپنے رجحان کی وجہ سے انھوں نے ’میو سکول آف آرٹس‘ سے سنہ 1947 میں کمرشل ڈیزائن کا ڈپلومہ حاصل کیا۔

میو سکول آف آرٹس کو اب نیشنل کالج آف آرٹس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’پاکستان میں تجدیدی آرٹ کی ترویج کے لیے سنہ 1952 میں اس وقت کے آرٹ کے چند بڑے ناموں نے مل کر لاہور آرٹ سرکل کی بنیاد رکھی۔ ان افراد میں انور جلال شمزا، شاکر علی، معین نجمی، احمد پرویز، سید علی امام، مریم حبیب اور رضیہ فیروز شامل تھے۔ تقریباً چھ سال تک لاہور آرٹ سرکل فعال رہا، جس کے بعد انور جلال شمزا سکالر شپ پر آرٹ کی مزید تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے، پھر پاکستان آتے جاتے تو رہے تاہم مستقل طور پر برطانیہ میں ہی مقیم ہو گئے۔‘

شمزا کے فن پارے پاکستان کیسے آئے؟

انور جلال شمزا کی بھانجی رخسانہ خان جو خود بھی لاہور میں آرٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں بتاتی ہیں کہ ’میرے ماموں سنہ 1985 میں پاکستان میں مختلف شہروں میں روٹس کے نام سے اپنے فن پاروں کی نمائش کرنا چاہتے تھے، تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں کہ پاکستان آنے سے قبل برطانیہ میں ہی حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔‘

رخسانہ خان کے مطابق پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس جو اس دور میں ادارہ ثقافتِ پاکستان کہلاتا تھا، نے انور جلال شمزا کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ میری شمزا، جو خود بھی نامور آرٹسٹ ہیں، کو ان کا کام پاکستان لانے اور نمائش کے انعقاد کو یقینی بنانے پر آمادہ کیا۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق انور جلال شمزا کی اہلیہ نے ان کے دس فن پارے ’روٹس‘ نمائش جو لاہور، کراچی اور پشاور میں منعقد ہوئی، کے لیے نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے حوالے کیے۔

ان میں پانچ پینٹنگز اور پانچ ڈرائنگز شامل تھیں۔ فن پاروں کی حوالگی کے اس دستاویز میں ان کا میری شمزا کی ملکیت ہونا اور عارضی وقت کے لیے پاکستان کو فراہمی واضح طور پر درج ہے۔

فن پارے کہاں گئے؟

رخسانہ خان بتاتی ہیں ’روٹس نمائش کے اختتام پر میری شمزا نے بذریعہ خط ادارے سے اپنے مرحوم خاوند کے فن پارے واپس مانگے تو انھیں یہ جواب دیا گیا کہ یہ فن پارے بیرون ممالک میں منعقد ہونے والی نمائشوں میں بھیجے جائیں گے۔ پھر کچھ عرصہ گزرا تو اس کے بعد میری شمزا نے دوبارہ فن پاروں کی واپسی کا تقاضہ کیا مگر بارہا خطوط لکھنے کے باوجود انھیں ادارے کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں ’سنہ 1988 میں میری شمزا کو پی این سی اے کے اس وقت کے سربراہ غلام رسول کا ایک خط موصول ہوا جس میں انھیں ان دس فن پاروں کی چالیس ہزار روپے قیمت دینے کی پیشکش کی گئی۔ جسے میری شمزا نے قبول نہیں کیا۔‘

رخسانہ خان کے مطابق اگر سرکاری سطح پر میری شمزا کو کبھی کوئی جواب ملتا بھی تھا تو اس میں یہ مؤقف اختیار کیا جاتا کہ ادارہ اس بارے میں معلومات اکٹھی کر کے جلد ان سے رابطہ کرے گا۔ اس عرصے میں ادارہ ثقافت پاکستان ’نیشنل کونسل آف دی آرٹس‘ میں بدل گیا۔ اس ادارے کے ہر نئے آنے والے سربراہ کو انور جلال شمزا کی اہلیہ رابطہ کرنے کی کوششیں کرتیں رہیں۔

پاکستان نیشنل کونسل میں اس حوالے سے موجود دستاویزات کے مطابق انور جلال شمزا کی اہلیہ نے ناصرف کونسل کو خود خطوط لکھے بلکہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن اور پاکستان میں برطانوی سفارتی مشن کے ذریعے بھی اپنے شوہر کے فن پارے واپس لینے کے لیے کوششیں کیں۔

ثمینہ اقبال بتاتی ہیں کہ وہ اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لاہور آرٹ سرکل پر تحقیق کے سلسلے میں سنہ 2013 میں لندن میں انور جلال شمزا کی اہلیہ سے ملیں۔

’ملاقات میں میری شمزا نے مجھے درکار تمام معلومات فراہم کیں۔ ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے خاوند کے 28 سال سے لاپتہ فن پاروں کے بارے میں بھی بتایا اور مجھ سے درخواست کی کہ وہ مجھے ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے نام اپنے ہاتھ کا لکھا ایک خط دینا چاہتی ہیں اور پوچھا کہ کیا میں یہ ان تک پہنچا سکتی ہوں؟ شاید انھیں میرے (میری شمزا) خط اب نہیں ملتے ہیں۔‘

ثمینہ اقبال بتاتی ہیں کہ انھوں نے وطن واپس آ کر میری شمزا کا وہ خط ڈی جی پی این سی اے کو پہنچایا، دوبارہ بھی گئیں مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔

فن پارے واپس نا دینے کی وجہ کیا تھی؟

ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس ڈاکٹر فوزیہ سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ظاہری طور پر فن پاروں کے واپسی نہ ہونے کی وجہ صرف ارادے کا نہ ہونا نظر آتا ہے۔ سنہ 1985 کے بعد سے پی این سی اے کے بورڈ کی متعدد میٹنگز میں ان فن پاروں کی واپسی پر بات ہوئی مگر نتیجہ صفر رہا۔‘

ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سنہ 2007 میں پی این سی اے کی ’ذاتی یا مستقل کولیکشن‘ میں انور جلال شمزا کے ان دس فن پاروں کو بھی شامل رکھتے ہوئے شائع کیا گیا جس پر میری شمزا نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور پی این سی اے کی اس وقت کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ’عارضی طور پر نمائش کی غرض سے فراہم کردہ کسی آرٹسٹ کے کام ادارے کی ذاتی کولیکشن میں شمار نہیں کر سکتے۔‘

ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق پی این سی اے کے بورڈ کے اجلاسوں میں اس معاملے پر بحث جاری رہی، جس میں سرکاری حکام کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا جاتا کہ اب چونکہ ان فن پاروں کو ادارے کی ذاتی کولیکشن کے طور پر شائع کیا جا چکا ہے لہٰذا ان کی واپسی سے ایک پینڈورہ باکس کُھلے گا۔ جس سے پی این سی اے کو وہ فن پارے بھی واپس کرنے پڑیں گے جو خود آرٹسٹوں نے ادارے کو کولیکشن کے لیے دیے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں ’یہ وہ موقع تھا کہ میری شمزا نے پی این سی اے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا اور ملک کی معروف وکیل اور سماجی رہنما عاصمہ جہانگیر کی خدمات حاصل کیں۔ انھوں نے کونسل کے نام ایک قانونی نوٹس بھیجا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ادارہ انور جلال شمزا کے فن پارے ان کی اہلیہ کو واپس کرے، ورنہ ان فن پاروں کا دنیا میں گمشدہ املاک کی فہرست میں انداج کرانے کے لیے قانونی کاروائی کی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قانونی نوٹس کے جواب میں میری شمزا کو یہ معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی تاہم یہ معاملہ جوں کا توں التوا کا شکار رہا۔

فن پارے اپنے حقیقی مالک تک کب اور کیسے پہنچے؟

ڈاکٹر فوزریہ سعید کہتی ہیں کہ انھیں انور جلال شمزا کے فن پاروں کے بارے میں پی این سی اے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے علم تھا۔

’بطور ڈی جی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد میں نے وفاقی وزیر تعلیم و خصوصی تربیت اور قومی ورثہ شفقت محمود کو اس بارے میں مطلع کیا کہ انور جلال شمزا جیسے لوگ اس ملک و قوم کا اثاثہ ہیں مگر ان کا کام زبردستی ہمیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔‘

’جس پر انھوں نے قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ان فن پاروں کو حقدار تک پہنچانے کا کہا۔ ہم نے پہلے پی این سی اے کی کولیکشن پر از سر نو غور کے لیے آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی، قانونی پہلوؤں کو دیکھا اور پھر ادارے کے نئے تشکیل شدہ بورڈ کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔‘

ثمینہ اقبال کہتی ہیں کہ وہ انور جلال شمزا کی پینٹگز اُن کے خاندان کے حوالے کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر فوزیہ سعید سے بھی ملیں تھیں۔

وہ بتاتی ہیں ’چھ ماہ قبل پی این سی اے کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور ان فن پاروں سے متعلق کمیٹی میں شمولیت کی پیشکش کی گئی۔ کمیٹی میں تمام افراد نے پینٹگز انور جلال شمزا کے خاندان کے حوالے کر نے کی سفارش کی۔‘

ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سترہ اگست 2020 کو انور جلال شمزا کے تمام فن پارے انور جلال شمزا کی بھانجی اور ان کے خاندان کی جانب سے قانونی طور پر مقرر کردہ نمائندہ رخسانہ خان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

انور جلال شمزا کی نواسی افراح شمزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پینتیس سال تک ان کی نانی اپنے مرحوم شوہر کے فن پارے حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتی رہیں، فن پاروں کی واپسی پر ان کا پورا خاندان بہت خوش ہے اور وہ ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جو میری شمزا کی اس سلسلے میں مدد کرتے رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp