آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ: اب آگے کیا ہو گا؟


اے پی سی

‘اے پی سی کے اعلامیے میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر حزب مخالف کی جماعتیں ان میں سے 50 فیصد پر بھی عمل کر لیں تو وہ وزیر اعظم کو اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں’

گذشتہ روز حزبِ مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کو برسرِ اقتدار لانے میں اسٹیبلیشمنٹ کے مبینہ کردار پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے بغیر لگی لپٹی رکھے کُھل کر اور واضح الفاظ میں بات کی گئی تھی۔

اس کے اگلے ہی روز یعنی آج مقامی ذرائع ابلاغ پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات کی خبریں نشر ہو رہی ہیں اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کے دوران فوج کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ’فوج کا ملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ان خبروں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کی فوجی نمائندوں سے یہ ملاقات گذشتہ ہفتے فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قانون پاس ہونے کے بعد منعقد ہونے والے عشائیے پر ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

کمپنی کھولنے سے پہلے آنکھیں کھول لیں

’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی‘

نواز شریف کا ’ماسٹر سٹروک‘ لیکن شہباز شریف کی پھر ’مصالحت کاری‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملاقات کی یہ خبر سامنے لا کر چند حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت ایک پیچ پر ہے۔

صحافی و تجزیہ کار عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اے پی سی کے دوران سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور جمعت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر واضح انداز میں بات کی جس سے عام لوگوں میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار سے متعلق شکوک وشہبات جنم لے رہے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ حالیہ قوانین پاس ہونے سے متعلق ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کو کس حد تک یقین تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس ہو جائے گا تو اُن کا کہنا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے تمام معاملات کو دیکھ لیا تھا اور اُنھیں اس بل کے پاس ہونے کا یقین تھا، تبھی تو آرمی چیف نے پارلیمانی رہنماؤں کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔

اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ: اب آگے کیا ہو گا؟

گذشتہ روز گیارہ سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کے بارے میں عارف نظامی کا کہنا تھا کہ اس اعلامیے میں جتنے بڑے دعوے کیے ہیں تو اب اُن دعوؤں کی پاسداری کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں کو کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ جس طرح میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولے ہیں اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے، جو کہ اس آل پارٹیز کانفرس کی میزبان تھی، کُھل کر بات نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت تو ایک طرف اسٹیبلیشمنٹ کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ حزب مخالف کی جماعتیں اکھٹی نہ ہوں کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ ہمیشہ سے ’ڈیوائڈ اینڈ رول‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ استعفوں کے آپشن کو اعلامیے میں شامل کر کے پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمعت علمائے اسلام نے سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو راضی کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔

اے پی سی

فائل فوٹو

عارف نظامی کا کہنا تھا کہ اے پی سی کے اعلامیے میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر حزب مخالف کی جماعتیں ان میں سے 50 فیصد باتوں پر ہی عمل کر لیں تو وہ وزیر اعظم کو اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں، اور ایسا ہونے کی صورت میں ریاستی ادارے بھی وزیر اعظم پر دباؤ بڑھائیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی شاہنواز رانجھا کا کہنا ہے کہ اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے باہمی مشاورت سے کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو کہ اپنی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں سے بھی مذاکرات کرکے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرے گی۔

شاہنواز رانجھا کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر متفق تھیں تاہم پی پی پی کو بھی راضی کر لیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذہن میں یہ ہوگا کہ اگر اُنھوں نے سندھ حکومت چھوڑ دی اور انتخابات ہو بھی گئے تو وہ شاید صوبہ سندھ سے باہر نہ نکل سکیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اسمبلیوں سے استعفے ایک آخری آپشن کے طور پر استعمال کیے جائیں گے لیکن اس سے پہلے تمام جماعتیں ملک کے تمام بڑے شہروں میں جلسے کریں گی جس میں حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت شرکت کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان ماضی میں اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ سابق سینیٹر اعتزاز احسن جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت نے اُن کی جماعت کو ہمیشہ دھوکا دیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل کی اے پی سی میں موجود تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر تھیں کیونکہ تمام جماعتوں نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے عوام کو نجات دلانے کے لیے متحد ہو جائیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ملک کو اس ’سلیکٹڈ حکومت ‘سے نجات دلانے کے لیے عوام حزبِ مخالف کی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ جماعتیں عوام کو مایوس نہیں کریں گی۔

چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اس وقت ہی پنپ سکتی ہے اور ملک صرف اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے اور فوج سمیت تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ بڑے کاز کے لیے چھوٹی موٹی خامیوں کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔

مقامی صحافی شاکر سولنگی جنہوں نے اے پی سی کو تمام دن کور کیا، کا کہنا تھا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں بات کی اور جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حزب مخالف کی جماعتیں اس مرتبہ کچھ کرنے کا عز م لیے ہوئے ہیں۔

شاکر سولنگی کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری تیار نہیں تھے اور اُنھوں نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ ان کی جماعت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوں گے تاہم جے یو آئی کے سربراہ کے اصرار پر وہ اس نقطے پر بھی راضی ہوگئے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا برملا اظہار کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp