کنجر تنگ کر رہا ہے؟



عموماً ہم زبان کو ویسے جانتے ہیں جیسے وہ ہمارے ارد گرد بولی جاتی ہے۔ خود کو اردو کا استاد سمجھ کر اساتذہ کہے جانے والوں کی زبان و کلام میں فاش غلطیاں تلاش کرتے ہوئے یہ قرار دینا کہ انہیں اردو نہیں آتی تھی، حماقت ہوتی ہے۔

وقت کے ساتھ بہت سے الفاظ کے معنی بدلتے ہیں۔ اور بہت سے الفاظ کے ایسے بہت سے معنی ہوتے ہیں جو ہمیں اپنی کم علمی کے سبب معلوم نہیں ہوتے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ میر تقی میر جیسے نازک مزاج شخص کسی دھڑلے سے خود کو کنجر کہتے ہیں۔

میر جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں

اب اس کا مطلب فی زمانہ سب جانتے ہی ہیں کہ ناچنے گانے والوں کو کنجر کہا جاتا ہے۔ نیز استعارتاً اس کا مطلب کمینہ، رذیل ہے۔ یہ لفظ خاص طور پر ڈرائیونگ کرنے والے خواتین و حضرات کثرت سے استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔

اب ہم خدائے سخن میر پر خوب ہنستے ہیں کہ کیا چول بندہ تھا، خود کو رذیل کہتا تھا۔
ایسے ہی ایک صاحب کا قصہ پڑھتے ہیں۔

”ایک بار جناب جوش لاہور تشریف لائے تو ایک نوجوان نے ان سے استدعا کی کہ جناب! میر تقی میر کا ایک شعر سمجھا دیا جائے۔ جوش صاحب نے گلوری منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا، کہئیے میاں صاحب زادے کون سا شعر ہے؟ نوجوان نے بتایا

میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں

جوش مسکرائے اور فرمایا، ’کنجر تنگ کر رہا ہے؟‘ نوجوان نے ہاں میں سر ہلایا۔ جوش صاحب بولے، صاحب زادے، یہ پنجاب کا کنجر نہیں ہے۔ گنگا جمنا کی وادی میں کنجر، خانہ بدوش کو کہتے ہیں، جس کا کوئی متعین ٹھکانہ نہ ہو“۔

لغت کو دیکھا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا ایک مطلب یہ لکھا ہوا ہے :۔
”ایک خانہ بدوش نیچ ذات کی قوم (یا اس کا فرد) جو سرکیاں اور چھینکے وغیرہ بنا کر بیچتی ہے، جنگلی جانور کا شکار کرتی اور مردار گوشت اور سانپ وغیرہ کھاتی ہے، یہ قوم بھیک بھی مانگتی ہے، کنچن“ ۔

اس لیے کسی لفظ کے بارے میں کنفیوز ہوں اور جوش ملیح آبادی کی بجائے صرف ذاتی جوش ہی میسر ہو، تو اس کا دف مارنے کے لیے لغت سے رجوع کرنا چاہیے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی لغت بہترین ہے۔ فرہنگ تلفظ بھی ذاتی طور پر مجھے پسند ہے۔ یہ دونوں ہمہ گیر ہیں اور جانتی ہیں کہ اردو بولنے والے مختلف خطوں میں رہتے ہیں اور کسی ایک کے لہجے کو دوسرے پر ترجیح دے کر دوسرے کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ویسے ہی جیسے ہم برطانوی قاعدہ اور گرائمر اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکی، آسٹریلوی اور ہندی غلط انگریزی بولتے لکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دکنی یا لاہوری اردو غلط ہے۔

سیکھنے کا شوق اور نیت ہو تو اساتذہ کی غلطی پکڑنے کی بجائے یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ انہوں نے فلاں لفظ کو ان معنوں میں کیوں استعمال کیا جو ہمیں غلط لگ رہے ہیں۔ اپنا علم بڑھانا ہو تو کسی مانے ہوئے عالم فاضل کی بجائے خود کو کم علم سمجھنے کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar