نواز شریف کی تقریر کافی نہیں


سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر پھر سے زیر بحث ہے حالانکہ اس تقریر کے الفاظ غیر متوقع نہیں تھے۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں میاں صاحب پہلے بھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف اقدامات کرپشن نہیں بلکہ کسی اور جرم کی سزا میں اٹھائے گئے ہیں۔ ایک بار پھر انہوں نے عوام کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ بد عنوانی کا نہیں، اصل مسئلہ اس ملک میں حکمرانی کے تصور پر بحث کا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک اس ملک میں جتنے بھی سویلین وزرائے اعظم آئے صرف ان پر ہی بد عنوانی، نا اہلی اور غداری (ہندوستان نوازی) کے الزامات لگتے رہے۔

اختیار و اقتدار میں مداخلت کا رونا بھی اور منصب سے بے عزت ہو کر نکلنا بھی صرف سویلینز کا مقدر رہا۔ لیکن عوام کو یہ بتانے کی ضرورت آج تک کسی نے محسوس نہیں کی کہ ان الزامات کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما تھے۔ جمہور کی طرف سے عنایت کردہ اختیار میں مداخلت کے مرتکب اصل کردار کون تھے۔ اس قوم کی شعوری و فکری نشونما کبھی اس طرح ہونے ہی نہیں دی گئی کہ وہ از خود ان سوالات کی کھوج لگا سکیں۔ اس پر مستزاد اس قوم کو سیاسی عقیدتوں میں اس بری طرح تقسیم رکھا گیا کہ وہ اظہر من الشمس حقائق کو بھی اپنی عصبیت کی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔

پہلی بار میاں صاحب نے عوامی بالادستی کی جد و جہد کا علم اٹھانا چاہا ہے لیکن معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے عوام کو ان سوالات کے جواب فراہم کرنے کی کوشش انہوں نے بھی نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب واحد سیاستدان ہیں جو کھل کر عوام کے روبرو اپنی غلطیوں کا نہ صرف اعتراف کر چکے ہیں بلکہ، یہ بھی انہوں نے تسلیم کیا کہ ماضی میں عوامی اقتدار کے قلعے میں نقب لگانے کا راستہ فراہم کرنے میں ان کی معاونت بھی شامل رہی مگر یہ کافی نہیں۔

نا اہلی کی سزا کے فوراً بعد جب جی ٹی روڈ پر عوامی عدالت میں میاں صاحب اپنا مقدمہ لے کر گئے تو اس وقت انہیں خلق خدا کی جانب سے پذیرائی اسی مطالبے کی بنیاد پر ملی تھی۔ یہ سوال مگر اٹھتا رہے گا کہ اپنے خلاف سازشوں کا بار بار ذکر کرنے کے بعد بھی اس کی تفصیل بتانے کو وہ کبھی راضی کیوں نہیں ہوئے؟ حالانکہ وہ راز اب کوئی راز بھی نہیں رہے۔ قوم کا ہر بچہ جان چکا ہے کہ گزشتہ حکومت کی راہ میں کن کن مواقع پر رخنہ اندازی ہوئی۔

دھرنے کیسے ہوئے اور ان کے پس پردہ کون تھا یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جب تک مگر خود نواز شریف کی زبانی عوام یہ سب نہیں سن لیتی کوئی ان کے بیانیے پر کیونکر ایمان لائے گا؟ اس دشت کی سیاحی میں نواز شریف نے تین دہائیاں گزاری ہیں۔ لہذا ان سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا کہ سیاست اور جنگ کے داؤ پیچ میں وقت کی کیا اہمیت ہے۔ میاں صاحب نے تیسری بار اقتدار سنبھالتے وقت کہا تھا کہ وہ اب عوام سے اپنا رشتہ استوار رکھیں گے۔

ان کے اقتدار پر جب دور ابتلا کا آغاز ہوا، اپنے اس قول کی روشنی میں اگر وہ عوام کے سامنے تمام حقائق رکھ دیتے، شاید ان کا انجام تو یہی ہوتا، لیکن اب تک ان کے بیانیے کی بنیاد پر فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہو چکا ہوتا۔ دیر آید درست آید اب میاں صاحب نے دوبارہ یہ علم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تو نتائج سے بے پروا ہو کر انہیں اس پر ڈٹ جانا چاہیے۔ ایسا مزید نہیں چل سکتا کہ وہ تقریریں تو عوامی بالادستی اور ووٹ کو عزت دلانے کی کرتے رہیں اور ان کی جماعت کی دیگر قیادت بند دروازوں کے پیچھے خفیہ ملاقاتیں کرتی رہے۔

ان کے بیانیے کا حاصل یہ ہے کہ طاقت کا اصل منبع عوام کے ہاتھ میں ہو۔ عوام کے پاس اپنے مقدر کا فیصلے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس بیانیے پر ایمان لانے والا ہر شخص ریاستی اداروں کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔ اس بیانیے کا اصل پیغام یہ ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں غلط کیا ہے؟

کچھ لوگ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ میاں صاحب اس بیانیے پر بضد رہے تو ان کی جماعت بکھر جائے گی۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ صاحبان اقتدار کی ناؤ اس وقت تک بھری رہتی ہے، جب تک اقتدار کا تختہ پر سکون ہوتا ہے۔ جونہی یہ ناؤ ہچکولے لینا شروع ہوتی ہے، ایک ایک کر کے تمام ابن الوقت اپنی جان بچانے کے لیے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ میاں صاحب اگر عوامی بالادستی کا علم اٹھانے کے خواہشمند ہیں تو انہیں تذبذب اور گومگو سے ہر صورت نکلنا ہو گا۔

انہیں یہ بات ذہن میں بٹھانا پڑے گی کہ یہ جنگ انہیں تنہا لڑنی ہے۔ ہمہ یاراں جنت، ہمہ یاراں دوزخ پر یقین رکھنے والے بہت کم لوگ سیاست میں ہوتے ہیں۔ جو لوگ اقتدار و اختیار کے دنوں میں ان کے یمین و یسار رہے ان میں سے کچھ انہیں چھوڑ کر جا ہی چکے، باقیوں کی طرف سے داغ مفارقت ملنے کے لئے بھی انہیں ذہنی طور پر تیار رہنا پڑے گا۔ ان کے برادر خورد کے قدموں کی لغزش اور زبان کی ہچکچاہٹ بھی یہ پتہ دے چکی ہے کہ وہ بھی اپنے برادر بزرگ کے بیانیے کا ساتھ دینے میں متامل ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں نواز شریف کے بیانیے کے سوا کوئی اور بیانیہ موجود نہیں۔ کیونکہ مسئلہ اگر واقعتاً بد عنوانی کا ہوتا تو پھر اسے محض مخالفین کے ساتھ مخصوص نہ کیا جاتا۔ جو لوگ اب تک اس بیانیے کے مخالف ہیں جلد یا بدیر انہیں بھی اس پر ایمان لانا ہو گا۔ اس مملکت کے قیام سے لے کر تاحال بد عنوانی کے خاتمے کے نام پر کئی بار نظام مملکت کے کنویں سے ڈول بھر کر نکالے جاتے رہے لیکن کنواں بدستور ناپاک ہے۔ اس ناپاکی کے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اختیارات سے تجاوز کا تعفن جو بد عنوانی کی اصل بنیاد ہے اسے کبھی کنویں سے نہیں نکالا گیا۔ سمجھ لینا چاہیے کہ اختیارات سے تجاوز خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، جب تک اسے ختم نہیں کیا جائے گا بد عنوانی کا خاتمہ نا ممکن رہے گا۔

پیپلز پارٹی خود تاریخ میں جبر کا شکار رہی، حالیہ عرصہ میں اس کا کردار مگر بہت شرمناک رہا۔ اس کی اعلی قیادت جانتے بوجھتے ہوئے کہ وہ تاریخ کے غلط موڑ پر کھڑی ہے میاں صاحب کے خلاف ہونے والے ہر اقدام میں بصد شوق شریک رہی۔ لیکن جب شعلوں نے اس کے آنگن کا رخ بھی کر لیا تو تب اسے احساس ہوا ہے کہ اتنی محنت سے جو منظر نامہ بنوایا ہے اس میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ شاید یہی احساس پیپلز پارٹی کو پھر سے اس کے اصل ٹریک پر واپس لے آئے۔

اور جتنا جلد اسے یہ احساس ہو جائے، اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ ن لیگ کو بھی اب واضح فیصلہ کرنا ہوگا کہ نواز شریف کے بیانیے پر عمل کرنا ہے یا اسے محض تقریروں تک ہی محدود رکھنا ہے۔ کیونکہ تاریخ کے اس موڑ پر جو قوتیں عوامی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں وہی امر ہوں گی۔ جو لمحہ موجود اور وقتی مفادات کی اسیر رہ کر جینا پسند کریں گی وقت ان کی داستان مٹا دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).