کیا وزیر اعظم آرمی چیف سے جواب طلب کریں گے؟


سیاسی لیڈروں کی فوجی قیادت سے ملاقاتوں کی خبریں عام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب وزیر ریلوے شیخ رشید نے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے لاہور میں آرمی چیف سے تنہائی میں ملاقات کی تھی ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد اعلیٰ نواز شریف نے ایک ٹوئٹ پیغام میں اپنی پارٹی کو انفرادی یا گروپ کی صورت میں فوجی قیادت سے ملاقات کرنےسے منع کردیا ہے۔

نواز شریف نے یہ فیصلہ فوج کے سیاست میں عدم مداخلت کے اصول کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان بھی فوجی لیڈروں سے جواب طلب کریں گے کہ وہ کس حیثیت میں ملک کے سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان میں سیاسی امور کیوں زیر بحث آتے ہیں؟ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر عمران خان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف سول حکومت اور فوج کے ’ایک پیج ‘ پر ہونے کی تشہیر نہ کریں بلکہ اس بات کی نگرانی بھی کریں کہ ان کی قیادت میں جو حکومت ملک میں برسر اقتدار ہے، اس کا معاملات پر پورا کنٹرول ہے اور وہ کسی صورت عسکری اداروں کو سیاست میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اپوزیشن کی اے پی سی کے بعد حزب اختلاف کے لیڈروں کو دفاعی پوزیشن میں لانے کے لئے ان کے بارے میں نام نہاد خفیہ ملاقاتوں کی بعد از وقت تشہیر کے ذریعے سیاسی مقاصد تو حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن اس سے یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ ملکی فوج واقعی ’غیر سیاسی‘ ہے اور صرف اس ملاقات میں شریک ہوتی ہے یا اس معاملہ پر رائے کا اظہار کرتی ہے جو اس کے شعبہ سے متعلق ہو یا جس کے بارے میں وزیر اعظم خاص طور سے فوجی لیڈروں سے رائے طلب کریں۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ فوجی قیادت قومی سیاسی رہنماؤں کے علاوہ سفارت کاروں اور ملک کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سول سیاسی لیڈروں سے کس حیثیت میں ملاقات کرتی ہے۔ کیا اس قسم کی ملاقاتوں کا کوئی ضابطہ کار طے کیا گیا ہے اور کیا اس پروٹوکول پر عمل کرتے ہوئے ہر ملاقات کے بارے میں وزیر اعظم کے دفتر کو رپورٹ جمع کروائی جاتی ہے۔

 عمران خان اگر یہ اعلان کرنے سے قاصر ہیں اور انہیں فوجی قیادت کے فیصلوں، میل ملاقاتوں، طریقہ کار اور سیاسی معاملات میں ان کی مداخلت پر کوئی کنٹرول نہیں ہے تو اس سے نواز شریف کی اے پی سی میں کی گئی تقریر کی تصدیق ہوگی، حکومت کے خود مختاری اور بااختیار ہونے کا ثبوت نہیں ملے گا۔ عمران خان کی کابینہ کے اہم رکن اور وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے شیخ رشید نے اتوار کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس سے ایک روز بعد اپوزیشن قیادت کی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کے بارے میں انکشافات کئے تھے۔ شیخ رشید کے بیان کے وقت اور موقع کی مناسبت سے اس کی سیاسی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں ۔ اے پی سی میں نواز شریف نے ریاست بالائے ریاست کا بیانیہ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’ان کی جد و جہد عمران خان نہیں بلکہ انہیں مسلط کرنے والوں کے خلاف ہے‘۔ اس بیان کی شدت اور چبھن ملکی انتظام میں دور تک محسوس کی گئی ہے۔

 اے پی سی میں کی گئی اس تقریر سے صرف شیخ رشید ہی چیں بجبیں نہیں ہیں بلکہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی کل ایک بیان میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آرمی چیف سے دو ملاقاتوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان ملاقاتوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے قانونی معاملات عدالتوں اور سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوں گے۔ اے آر وائی کو دیے گئے اس انٹرویو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ جیسے محمد زبیر، شریف خاندان کے لئے ریلیف لینے کے لئے آرمی چیف سے ملنے گئے تھے۔ اب محمد زبیر نے ان ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات میں ان کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ’نہ میں اپنے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ پارٹی کے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ میاں نواز شریف کے لیے ، نہ مریم نواز کے لئے‘۔ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے چالیس پرانے خاندانی اور نجی مراسم ہیں اور اسی حوالے سے وہ ان سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے جن دو ملاقاتوں کا حوالہ دیا ہے، وہ اگرچہ خفیہ نہیں تھیں لیکن نوعیت کے اعتبار سے ان کا اعلان کرنا بھی ضروری نہیں تھا۔ اسی لئے انہوں نے نہ کسی کو اس بارے میں بتایا اور نہ ہی اس کا اعلان کیا۔ محمد زبیر نے حیرت کا اظہار کیا کہ فوج کے ترجمان کو اس وقت ان ملاقاتوں کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے۔

اس سوال کا جواب شاید آئی ایس پی آر کے سربراہ تو نہیں دیں گے کیوں کہ انہوں نے ہدایت کے مطابق ہی ایک ایسے وقت آرمی چیف اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر کی ملاقاتوں کی تفصیل عام کرنا ضروری سمجھا ہوگا، جب سیاست میں فوج کے کردار پر بحث ہورہی ہے۔ البتہ وزیر اعظم پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت ادارے کے عہدیداروں سے ان کے بیان کی حکمت اور ملاقاتوں کی ضرورت کے بارے میں دریافت کریں۔ ملک میں فوج اور سیاست کے حوالے سے ہونے والی پرجوش بحث میں فوجی ترجمان کی یوں شرکت ملک کے چیف ایگزیکٹو کے سیاسی اور انتظامی اختیار کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومتی نمائیندے اگرچہ اس بیان سے اٹھنے والی دھول میں مسلم لیگی لیڈروں اور نواز شریف کے ’فوج سیاست میں دخل اندازی بند کرے‘ کے بیان کی اہمیت کم کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کسی بھی طرح ’این آر او‘ لینے کے لئے ہاتھ پاؤں مارر ہے ہیں تاکہ ان کے جرائم اور کرپشن کا پردہ فاش نہ ہو۔

حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ میجر جنرل بابر افتخار کے بیان سے وزیر اعظم کا اختیار چیلنج ہؤا ہے۔ اس لئے ان پر اپنی پوزیشن اور آرمی چیف کے کردار کی وضاحت کرنا فرض ہوگیا ہے۔ اتوار کو منعقد ہونے والی اے پی سی، نواز شریف کی تقریر اور اپوزیشن کے نئے اتحاد کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عمران خان نے اپنے وزیروں سے کہا تھا کہ اپوزیشن کے ’الزامات‘ کا جواب دلیل اور منطق سے دیا جائے۔ ا س کے بعد شاہ محمود قریشی نے چند دیگر وزیروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں اپوزیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کرے۔ انہوں نے نواز شریف کے بیان کو ملک دشمنی سے محمول کیا۔ اب شیخ رشید کے بیانات اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کے انٹرویو سے واضح ہؤا ہے کہ اپوزیشن کے اعترضات بلاجواز نہیں ہیں۔ پاک فوج سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے اور اپوزیشن لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔

اس صورت حال کا بوجھ دراصل منتخب وزیر اعظم کے کاندھوں پر آپڑا ہے۔ یہی موقع ہے کہ معاملات کی وضاحت اور فوج کو تنبیہ کے ذریعے عمران خان ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ نہ صرف بااختیار ہیں بلکہ جمہوریت پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور پارلیمنٹ کو ہی سیاسی ، قانونی اور آئینی فیصلے کرنے کی اصل جگہ سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم یہ وضاحت دینے میں ناکام رہے تو اپوزیشن کے اس الزام کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوگا کہ وہ ’نامزد وزیر اعظم ‘ ہیں اور نہ ہی نواز شریف کے اس اعلان کو مسترد کیا جاسکے گا کہ عسکری ادارے انتخابات سے پہلے ہی طے کرلیتے ہیں کہ حکومت کس کے سپرد کرنی ہے۔ عمران خان ایسے ہی انتظام کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے تھے۔

فی الوقت حکومت کی پالیسی یہی رہی ہے کہ وہ یہ ثابت کر کے خود کو بااختیار ثابت کر لے کہ اپوزیشن ’خفیہ ‘ طور پر فوجی قیادت سے مل کر سودے بازی کرتی ہے۔ اس سے اپوزیشن لیڈروں کے کردار کا دوغلا پن واضح ہونے کے باوجود عمران خان کے اختیار اور حکومت کی خود مختاری کی سند فراہم نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس نواز شریف نے ٹوئٹر پر یہ بیان جاری کیا ہے کہ ’حالیہ واقعات سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں چھپی رہتی اور کس طرح بعض کی تشہیر کرکے مرضی کے معنی پہنائے جاتے ہیں۔ یہ کھیل اب بند ہو جانا چاہیے‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’آج میں اپنی جماعت کو ہدایات جاری کر رہا ہوں کہ آئین پاکستان کے تقاضوں اور خود مسلح افواج کو اپنے حلف کی پاسداری یاد کرانے کے لیے آئندہ ہماری جماعت کا کوئی رکن، انفرادی، جماعتی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا‘۔

نواز شریف نے یہ بیان دے کر دراصل ملاقاتوں کے بارے میں ’انکشافات‘ سے پیدا ہونے والی سنسنی خیزی کو کافی حد تک دور کردیا ہے۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پوری کردی ہے۔ بلاول نے واضح کیا ہے کہ ’وہ قومی سلامتی کے امور پر گفتگو کے لئے آرمی چیف کے ساتھ ان کیمرا اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ حالانکہ ایسا اجلاس وزیر اعظم کی قیادت میں ہونا چاہئے لیکن وہ ہر معاملہ میں ذمہ داری لینے سے گریز کرتے ہیں‘۔ نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے عمران خان کی حیثیت اور حکومت کے اختیار پر اٹھائے گئے سوالات زیادہ سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali