نواب صاحب اور چالاک مہاجن


مسلمانوں کا ہیرو شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ہوتا ہے۔ ہمیں اسلاف کے کارنامے پڑھانے ہوں تو ادھر جنگی فتوحات کا حال ہی ہوتا ہے، بیت الحکمت کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ بڑے بڑے جرنیلوں کے اسباق ہوتے ہیں کہ انہوں نے محض تلوار کے بل پر کس طرح اکثریت پر راج کیا۔

ادھر ہندوستان میں بھی مسلم شرفا کا پیشہ شمشیر زنی ہوتا تھا۔ کاشت کار کی پھر تھوڑی بہت عزت تھی مگر کاروبار کرنے کو بہت اسفل مانا جاتا تھا۔ اس لیے تجارت سے نفرت کرتے ہوئے اسے عام طور پر ہندو بنیے اور مہاجن کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کمال یہ تھا کہ اسی مہاجن سے قرضے لے لے کر اپنی عزت بنائی جاتی تھی۔

مہاجنوں کو بھی کاٹھ کے کنگ سائز الو میسر تھے۔ ایک نواب اور مہاجن کا قصہ مشہور ہے۔ خدا جانے سچ ہے یا جھوٹ لیکن رویہ دکھانے میں بالکل سچ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک نواب صاحب کو رقم کی ضرورت پڑی تو ایک مصاحب کے توسط سے مہاجن نے تیس فیصد سود پر قرضہ دے دیا جس سے مصاحب اور مہاجن دونوں کا خوب بھلا ہوا۔ ایک دوسرے مصاحب کو بہتی گنگا دیکھ کر اپنی محرومی پر بہت قلق ہوا، نواب صاحب کو جھٹ شکایت جڑ دی کہ یہ مہاجن ابھی پچھلے ہفتے ہی فلاں شخص کو دس فیصد پر قرضہ دے چکا ہے، سرکار کو تیس فیصد پر دیا ہے، گویا سرکار کو چغد سمجھتا ہے۔

نواز صاحب کا طیش سے برا حال ہوا۔ فوراً مہاجن کو بلایا اور جواب طلب کیا کہ گھسیٹا رام بنیے کو تم نے پچھلے ہفتے دس فیصد بیاج پر قرضہ دیا ہے اور ہمیں تیس فیصد پر۔ کیا تم ہمیں لوٹ رہے ہو؟ مہاجن بھی حرفوں کا بنا ہوا تھا۔ اس نے ایک نظر مصاحب پر ڈالی اور جان لیا کہ کیا معاملہ ہے۔ فوراً کورنش بجا لایا اور عرض گزار ہوا کہ واقعی بندہ اس کا خطاوار ہے، اور اس وجہ سے یہ کیا ہے کہ حضور کے نام کو بٹا نہ لگے۔ اگر شہر میں خبر نکلتی کہ غلام نے نواب صاحب کے دولت خانے اور گھسیٹا رام بنیے کی جھونپڑی میں فرق نہیں رکھا اور جدی پشتی نواب صاحب بھی اتنا ہی بیاج دیتے ہیں جتنا بنیا، تو نواب صاحب کی کیا عزت رہ جاتی؟ آپ کے نام کو بلند رکھنا اس غلام پر فرض ہے۔ نواب صاحب نے معاملے پر غور کیا اور مہاجن کو حق پر پایا۔ مصاحب کو خوب جوتے لگائے گئے۔

مقامی معاشرے میں پڑھنے پڑھانے کا کام صرف سیدوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے سید ہمیشہ مقامی علمی میدان میں آگے رہے اور آج بھی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ جی یہ سب بڑے بڑے عہدوں پر کیوں بیٹھے ہیں۔ پھر زمانہ بدلا۔ رجواڑے اور تعلقے لپٹ گئے اور نوابوں کے پاس بس حویلی کی تصویر بچی۔ زمانہ بھی زمین کی بجائے تجارت اور ہنر سے کمانے والوں کا آیا۔

اب تلوار کی نوک سے نہ ٹائپنگ کرنا ممکن ہے، نہ پیسے سے پیسہ جوڑنے کا ذہن تلوار کی دھار سے تراشا جا سکتا ہے اور فی زمانہ اس سے فتوحات حاصل کرنے کی کوشش بھی جوتے پڑوائے گی۔ نتیجہ یہ کہ تجارت صنعت اور ٹیکنالوجی میں مسلم ممالک اعلیٰ درجے کے نکمے ہیں۔

امریکیوں کے آگے نکلنے کی ایک بڑی وجہ امریکی خواب بھی ہے جس میں ایک فقیر مسلسل محنت کرنے کے بعد بادشاہوں سے زیادہ امیر بن جاتا ہے۔ ہماری کہانیوں میں فقیر نے بادشاہ بننا ہو تو صبح دم وہ شہر میں داخل ہونے والا پہلا شخص ہونا چاہیے۔ پھر لوگ گزشتہ شب مرے ہوئے بادشاہ کا تخت لاٹری سسٹم کے تحت اسے سونپ دیتے ہیں۔

جب ہماری سڑکوں کا نام فلانا شہید کی بجائے فلانا عالم اور ڈھمکانا سیٹھ کے نام پر دکھائی دینے لگے گا تو ہی ہمارے بچے کچھ سیکھنے اور چار پیسے کمانے کا سوچیں گے۔ تب تک مردہ باد اور لعنت کا ورد کرتے ہوئے موصوف الیہ سے ہی ادھار یا بھیک مانگ کر کام چلانا پڑے گا۔ وہ بھی نوابی طریقے سے اپنے نام کو بلند رکھتے ہوئے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar