ماتم وقت کی گھڑی …. انتظار تو رہے گا


\"raziآج انتظار صاحب کی رخصتی کا دن ہے ۔ ایک مکمل شہر ، ایک مکمل تہذیب کے وداع کی گھڑی ہے ۔ یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے ۔یہ وہ گھڑی ہے کہ جس کا ہمیں انتظار ہی نہیں تھا اور اس لئے انتظار نہیںتھا کہ انتظار صاحب ہمارے درمیان تھے ۔ چند ہی تو لوگ ہوتے ہیں جن کے دم سے شہر سانس لیتے ہیں ۔چند لوگوں کی وجہ سے ہی بستی آباد ہوتی ہے ۔ جو بات کرتے ہیں تو زمانہ سانس لیتا ہے ۔جو خاموش ہو جائیں تو وقت کی دھڑکن بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ایسے لوگ مکمل شہر ہوتے ہیں ۔ شہر کا چہرہ ہوتے ہیں ۔ جیسے ملتان میں ارشد ملتانی تھے ۔ شہر کی خیر مانگتے تھے ۔کہتے تھے
خیر مانگوں کیوں نہ اپنے شہر کی
شہر کی گلیوں میں میرا گھر بھی ہے
ایسے ہی تھے انتظار حسین بھی تھے ۔ایک مکمل شہر ۔ایک مکمل تہذیب ۔اور صرف ایک شہر تو نہیں تھے وہ ۔وہ میرٹھ بھی تھے ۔لاہور بھی تھے ۔ اور رکھ رکھاﺅاور شائستگی میں وہ ملتان بھی تھے ۔اول و آخر پاکستان ہی تھے۔ہجرت کرنے کے باوجود مہاجر نہیں تھے ۔لاہور میں مقیم ہونے کے باوجود مقامی نہیں تھے ۔وہ شیعہ نہیں تھے۔سنی یا وہابی نہیں ۔وہ انتہا پسند بھی نہیں تھے ۔ترقی پسندی کا دعویٰ بھی نہیں کرتے تھے ۔
ایک شجرِ سایہ دار تھے وہ ۔چھتنار تھے وہ ۔ کہ جس کی چھاﺅں میں پرندے سانس لیتے اور چہچہاتے تھے ۔لفظ ان کی زبان سے ادا ہوتے تو اعتبار پاتے تھے ۔قلم سے قرطاس پر منتقل ہوتے تو امر ہو جاتے تھے ۔
وہ لکھتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے لفظ صدیوں سے انہی کے موئے قلم سے رقم ہونے کے محتاج تھے ۔منتظر تھے کہ انتظار صاحب انہیں تحریر کریں تو وہ’ لفظ ‘بن جائیں۔
جانے کتنے ہی سیکڑوں ہزاروں لفظ آج ماتم کناں ہوں گے کہ انتظار صاحب چلے گئے۔اور وہ سیکڑوں ہزاروں لفظ ’لفظ ‘کی مسند پر فائز نہ ہو سکے۔انہوں نے ایک آٹو گراف دیا تھا ۔’کمٹمنٹ۔۔ وہ تو میری نیم کے پیڑ کے ساتھ تھی‘۔
ارشد ملتانی کی کتاب ’ثبات ‘ شائع ہوئی تو انہوں نے ایک نسخہ انتظار حسین کو بھی ارسال کیا ۔’ انتظار حسین کے لئے ۔۔ میری کمٹمنٹ تو کھجی کے ساتھ ہے ۔کئی سال بعد وہی نسخہ ہمیں لاہور میں ایک سنڈے بک شاپ پر دکھائی دیا ۔ہم نے لپک کر اسے اٹھا یا اور سینے سے لگا لیا ۔کہ اس کتاب سے دو تہذیبوں کی وابستگی جھلکتی تھی ۔
یہ کوئی کالم ہے اور نہ ہی کوئی اختصاریہ ۔یہ تو بس خود کو پرسہ دینے کی کوشش ہے ۔میں تو کل وجاہت مسعود کو بھی انتظار صاحب کا پرسہ نہ دے سکا ۔میں تو ماتم وقت کی گھڑی میں اپنا دل ہلکا کر رہا ہوں ۔انتظار صاحب کا انتظار ختم ہوا مگر انتظار تو رہے گا۔انتظار رہے گا معاشرے کو اس شائستگی کا جو انتظار صاحب کی وجہ سے تھی۔انتظار رہے گا رواداری کا ۔انتظار رہے گا محبت کا۔امن کا او رفاختاﺅں کا۔امید اوریقین کا۔
اور یقین کیجئے جب تک ہمیں یہ انتظار رہے گا انتظار صاحب بھی ہمارے ساتھ رہیں گے۔اور ہمیں معلوم ہے انتظار تو رہے گا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments