گرفتاریوں کے بعد دیکھئے ہوتا ہے کیا!


آئین پاکستان منتخب حکومت کو جہاں پانچ سال کا مینڈیٹ دیتا ہے، وہاں یہی آئین اپوزیشن کو بھی اتنی ہی مدت کے لئے مینڈیٹ دیتا ہے کہ حکومت کی جن پالیسیوں اور اقدامات کو ملکی مفادات کے لئے اصلاح طلب محسوس کرتی ہے، ان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جمہوریت کی گاڑی کے دو ناگزیر پہیے ہیں، ایک پہیے سے گاڑی نہیں چل سکتی، لیکن جب نوبت یہاں تک آ جائے کہ وزراء کاغذ لہرا کر کسی کو ملزم ٹھہرانے لگیں اور ان کے اعلانات پر گرفتاری عملی صورت اختیار کرے تو بہت سے سوالات جنم لینے لگتے ہیں، جبکہ قانون کی عملداری اور احتساب ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں انتقام کا شائبہ یا سیاست کی کارفرمائی خطرناک ہے۔

پارلیمانی جمہوریت میں قانون اور احتساب کے ادارے آزادانہ و غیرجانبدارانہ انداز میں اپنا اپنا کام کرنے کے پابند ہیں، تاہم کسی ادارے کے جانبدارانہ طرز عمل کی وجہ سے سیاسی ماحول میں گرما گرمی آنا، معیشت کا جمود اور ہاتھا پائی یا افراتفری کا ماحول جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے اپوزیشن اور حکومت کو سنگین اختلافی امور میں بھی افہام و تفہیم سے درمیانی راہ نکالنی چاہیے، کیو نکہ افہام و تفہیم سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں اور یہی ہزاروں برس کی دانش کا نچوڑ ہے۔ اگرمعاملات کو تنازعات کی صورت اختیار کرنے سے بچایا نہ جائے تو ایسی صورتحال مارشل لاؤں، پابندیوں اور سانحوں کی طرف لے جاتی ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذآرائی ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے، اس میں ایک دوسرے کے بخیئے ادھیڑنے کے ساتھ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی، جبکہ اس سیاسی محاذآرائی کے کلچر کو فروغ دینے کے نتائج بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جس میں زیادہ ترجمہوریت کا مردہ ہی خراب ہی ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجودکشیدگی کے ماحول میں حکومت کے مخالفین کو توقع ضرور ہوتی ہے کہ انصاف کی عملداری میں عدلیہ کے ذریعے انہیں ریلیف ملے گا، تاہم اس حوالے سے بھی ہمارا سیاسی کلچر کوئی زیادہ تابناک نہیں، کیونکہ اس کلچر میں انصاف کی عملداری تبھی نظر آتی ہے جب اپنے حق میں فیصلے صادر ہورہے ہوں اور اگر انصاف کی عملداری میں کوئی فیصلہ اپنے خلاف آ جائے تو بلیم گیم میں عدلیہ کو رگیدنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے۔ میاں شہبازشریف کی ضمانت کی منسوخی کے بعد بھی کچھ ایسی ہی فضا بنتی نظر آ رہی ہے، اس ابر آلود سیاسی فضا میں اپوزیشن ریاستی اداروں کو اپنی تنقید کا ہدف بنا کر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کر نا ملکی اور جمہوری مفاد میں بہتر نہیں، اس کے نتائج جمہوریت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

ملک کی سیاسی قیادت ہمیشہ جمہوریت کی مضبوطی کے دعوئے تو بہت کرتے ہیں، مگر وقت آنے پر جمہوریت کی بجائے ذاتی مفاد کو تر جیح دی جاتی رہی ہے، آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، جمہوریت میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر حکومت گرانے کے لیے اے پی سی کا انعقاد کیا گیا ہے، لیکن اے پی سی کے نتائج سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا فائدہ اپوزیشن کی بجائے حکومت کو ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد توعمران خان کی تمام پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں۔

اگر کسی کے ذہن میں رتی برابر بھی حکومت گرنے یا جانے کا شائبہ تھا تو اب بالکل نہیں رہا ہے، کیونکہ اپوزیشن ناقص حکمت عملی سے واضح ہوگیا ہے کہ فیصلہ ساز حلقوں کے پاس عمران خان کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے۔ اس تنا ظر میں تحریک انصاف حکومت کی حکمت عملی فی الحال یہی ہے کہ اپوزیشن نے جن کو للکارا ہے، وہ خود ہی ان سے نمٹیں گے۔ حکومت میں سوائے شیخ رشید کے کوئی خاص جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کر رہا ہے اور سب جانتے ہیں کہ شیخ رشید کو کو بھی ملاقاتوں کے راز افشا کرنے کی ذمہ داری حکومت نے نہیں سونپی ہے، مگر اس لفظی جنگ کے نتیجہ میں تمام رابطے فی الحال منقطع ہوگئے ہیں جو نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ عمران خان پہلے ہی رابطوں اور کوئی گنجائش دینے کے مخالف ہیں، اگر تمام سٹیک ہولڈرز میں مکمل بریک ڈان ہو گیا تو اس سے فیصلہ سازی اور سیاسی ماحول میں بہتری نہیں ابتری ہی آئے گی۔

اس میں شک نہیں کہ حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان سخت محاذ آرائی کی وجہ سے پہلی بار قانون سازی اور اہم امور میں تعطل کی نوبت آئی ہے۔ اس سے قبل حزب اختلاف کے شور شرابے کے باوجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کی عددی اکثریت کے باوجود معاملات تعطل کا شکار نہیں ہوئے، لیکن اب اپوزیشن رہنماؤں کے انکارکے باعث انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا ملتوی ہونا حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان انتشار کامظہر ہے۔

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان روابط کی یہ سطح جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں، اگرحزب اختلاف نے اپنے رویئے میں تبدیلی نہ کی تو بہت سے اہم قومی معاملات تعطل کا شکار ہو جائیں گے، گلگت بلتستان میں انتخابات کے حوالے سے حزب اختلاف سپیکر کے علاوہ کسی اور حکومتی عہدیدار سے مشاورت کی خواہشمند ہے اور جسے حزب اختلاف اس عمل کے لئے موزوں سمجھتی ہے اس حوالے سے ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومت کو حزب اختلاف سے رابطہ کرنا چاہیے حزب اختلاف کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومتی نمائندوں کو حزب اختلاف سے رابطہ اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا جمہوری طریقہ ہے جسے اختیار کرنے میں تاخیر اور لیت ولعل مناسب نہیں، حزب اختلاف کو بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور تحفظات کی آڑ میں اپنے مقاصد کے حصول کی پوشیدہ سعی کی بجائے جمہوری طرز عمل اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر حکومت اور اپوزیشن کے بلیم گیم کا سلسلہ اسی طرح برقرار رہا اور ایک دوسرے کے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھوئے جاتے رہے تو بے رحم تاریخ خود کو دہرا نے میں دیر نہیں کرے گی۔ نیب کے اقدامات کے حوالے سے عدلیہ کو خود بھی اپنی ساکھ کا احساس ہے، اس لئے انتقامی سیاست میں سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح حکومتی ترجمانوں کو بھی مخالفانہ سیاسی محاذ گرما کر اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی راہ ہموار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اگر جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر چل رہی ہے تو اس کا سفر کھوٹا کرنے کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو شاید بحالی جمہوریت کی ماضی جیسی کوئی صبر آزما تحریک چلانے کی نوبت ہی نہ آپائے اور سب کچھ سمیٹ دیا جائے، سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے، اس لیے فی الحال سیاسی مطلع ابر آلود ہی دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے جواب میں مزید گرفتاریوں اور کریک ڈان کی شنید ہے، اس کے بعد آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).