کورونا وائرس: جب دہلی سنسان ہو گیا


رواں برس مارچ کے اواخر میں انڈیا کے شہر ایک دم معطل ہو کر رہ گئے تھے کیونکہ ملک میں کورونا وائرس کی عدم پھیلاؤ کے پیش نظر ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا۔ دفاتر بند ہو گئے تھے، پبلک ٹرانسپورٹ معطل تھی اور لوگ گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ایسے میں فوٹوگرافر پارول شرما سنسان دارالحکومت دہلی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے باہر نکلی تھیں۔

شرما نے بی بی سی کو ٹیلیفونک انٹرویو میں بتایا کہ ‘مجھ جیسے بے چین انسان کے لیے لاک ڈاؤن بہت مشکل تھا، مجھے عمومی طور پر گھر میں بند رہنا پسند نہیں ہے لہذا میں نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔’

انھیں اپنے اہلخانہ کو اس پر رضامند کرنے میں وقت لگا لیکن آخر کار وہ انھیں مطمئن کر کے تین اپریل کی دوپہر کو سنسان دہلی شہر کی فوٹوگرافی کرنے باہر نکل پڑیں۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ٹی وی پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیے ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔

اگلے چند ماہ تک انھوں نے کیمرے اور چند ضروری اجازت ناموں کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا۔ یہ وہ اجازت نامے تھے جو ایک صحافی، ڈاکٹر، سرکاری حکام یا شعبہ زندگی کے ضروری محکموں کے ملازمین کو دوران لاک ڈاؤن نقل و حمل کی اجازت دیتے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘میں شہر میں بادل اور پرندے دیکھ سکتی تھی لیکن دور دور تک کوئی انسان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ بہت جادوئی تھا، ساکن اور سنسان لیکن بہت خوبصورت، ایسا لگتا تھا کہ میں کسی اور دنیا میں ہوں۔’

اس کا نیتجہ یہ نکلا کے انھوں نے دہلی کی تاریخ کے اس غیر معمولی عرصے کے دوران دس ہزار سے زیادہ تصاویر کھینچ لیں۔ اور اب یہ شاندار تصویری مجموعہ رولی بکس کی شائع کردہ ان کی کتاب ‘ڈائلکٹس آف سائلنس’ یعنی خاموشی کی زبان کا حصہ ہیں۔’

وہ یاد کرتی ہیں کہ لاک ڈاؤن میں خالی شہر کی فوٹو گرافی کے دوران ان کا پہلا پڑاؤ، دہلی شہر میں ان کے پسندیدہ مقام کوناٹ پیلس کا تھا، یہ جگہ ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی اور یہ ایک دہلی شہر کے وسط میں گورجین انداز تعمیر کی گول دائرے میں گمٹی ہے۔ نوآبادیاتی دور حکومت میں یہ علاقہ دہائیوں تک اہم کاروباری مرکز تھا اب یہ علاقہ دکانوں، ریسٹورانوں اور بارز کے لیے مقبول ہے۔

تاہم اب بھی اس دور کے چند کاروباری مراکز اور عمارتیں یہاں موجود ہیں جیسا کے نامور ریگل تھیٹر جو دہلی کا سب سے پرانا اور مقبول سنیما ہال ہے۔

پارول شرما کہتی ہے کہ ‘میں شہر کے مشہور مقامات پر نہیں گئی بلکہ ان جگہوں پر گئی جہاں میرے بچپن کی یادیں جڑی ہیں۔’

کوناٹ پیلیس پر عام طور پر بہت بھیڑ رہتی ہے، چھابڑی والے، ٹھیلوں والوں کی بھرمار کے ساتھ ساتھ دفتروں میں کام کرنے والے افراد کا ایک ہجوم ہوتا ہے جو کام کے بعد یا دوپہر کے کھانے کے وقفے میں یہاں سے کچھ کھانے پینے آتے ہیں۔

شرما کہتی ہیں ‘لیکن اس دن وہاں صرف ویرانی اور خالی پن تھا۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘اس میں بھی اپنا ایک حسن تھا کیونکہ اس کی اپنی زبان تھی اور اس کا اپنا ہی ایک احساس ہر جگہ موجود تھا۔ ‘

لیکن شرما نے اپنی یادوں کے ذریعے شہر کے جن اہم مقامات کو تلاش کیا ان میں تقسیم ہند سے قبل کا اہم کاروباری مرکز خان مارکیٹ تھی جو اب دہلی کا ایک مرکزی اور پوش کاروباری اور شاپنگ مرکز بن چکا ہے۔

اس مرکز کے سامنے کے حصے میں مشہور بہاری سنز بک سٹور ہے جو پہلی مرتبہ غیر معینہ مدت کے لیے بند ہوا تھا۔

مصنف ولیم ڈیریمپل کا کہنا ہے کہ شرما نے ‘ایک چونکا دینے والے شاندار انداز میں دہلی کے نقاب پوش لاک ڈاؤن کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا ہے جس میں نظر بند، مخفی، صاف ستھرا، جامد اور انسانوں سے خالی ایسا دہلی دکھائی دیتا ہے جو چند بوریت کا شکار نوجوانوں اور دندناتے بندروں کے قبضہ میں چلا گیا ہے۔’

ان کا کہنا ہےکہ ‘انڈیا کے دارالحکومت کو کبھی اتنا انجان اور غیر حقیقی نہیں دیکھا۔’

لیکن لاک ڈاؤن شدہ دہلی کا کوئی علاقہ بھی چار سو سال پرانے مغل دور کے دہلی سے برعکس نہیں دکھائی دیتا تھا۔

شرما کہتی ہیں ‘ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ روحوں کا شہر ہے، یہ دیکھنا بہت حیران کن تھا۔’

اس شہر کی تنگ گلیاں اور مخدوش عمارتیں جو اس کے شاندار ماضی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ہمیشہ لوگوں سے اور سائیکل سے لے کر ریڑھیوں اور کاروں سے کھچا کھچ بھری رہتی تھیں۔

حتیٰ کہ دہلی کی سب سے مشہور جامع مسجد بھی خاموش ہو گئی تھی۔ شرما کا کہنا ہے کہ رات کے وقت پرانی دہلی سے سفر کرتے وقت ‘خوبصورتی اور خوف دونوں کا احساس ہوتا تھا۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘میرا مقصد خوبصورتی تلاش کرنا تھا لیکن جیسے جیسے لاک ڈاؤن بڑھا حالات تبدیل ہو گئے، کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوتا گیا اور میں تصویریں کھینچتی چلی گئی۔’

دہلی کے عوام کے لیے لاک ڈاؤن کا نیا تجربہ اور انڈیا کے شہروں کے لیے اس کے ساتھ جڑی ایک معمولی سے خوشی بہت جلد غیر یقینی اور مشکلات سے تبدیل ہو گئی۔ شرما اکثر تصاویر لینے کے لیے انڈیا کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سے ایک ایمز کے پاس سے گزرتی تھیں۔ ایک دن انھوں نے وہاں رکنے اور اسے کے باہر موجود افراد سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ہسپتال نے کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے باعث اپنا شعبہ بیرونی مریضاں عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔

تب انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اپنے کیمرے سے ان افراد کی مشکلات کو اجاگر کریں گی جو اس وبا کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔

شرما نے ہسپتال ایمز کے کورونا وارڈ کا دورہ کیا اور وہاں انھوں نے ان ڈاکٹروں کی تصاویر لیں جو ذاتی حفاظتی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔

انھوں نے کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے وارڈ کا بھی دورہ کیا اور وہاں پر داخل ایک نوجوان لڑکی سمیت دیگر مریضوں کی تصاویر لیں۔

شرما ہنستے ہوئے یاد کرتیں ہے کہ ‘وہ لڑکی وہاں ٹھیک تھی اور پی پی ای پہنے ایک ڈاکٹر سے اپنے بال سنوارنے کا کہہ رہی تھی۔’

ان کی فوٹوگرافی نے ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب انھوں نے اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تصاویر لینا شروع کیں۔ انڈیا کی غریب، بے سہارا طوائفیں اور جسم فروش خواتین جن کے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے اور وہ اچانک بے روز گار ہو گئیں تھیں۔

اس وقت انھیں کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، شرما بتاتی ہے کہ ‘بطور خاتون میری ہمت توڑی گئی مجھے بہت سے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔’

لیکن انھوں نے اپنا کام جاری رکھا اور جہاں ان کی جستجو انھیں لے کر گئی وہ بس چلتی گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں صرف دور کھڑی تماشائی نہیں بننا چاہتی تھی۔’

ان کا کام انھیں مسلمانوں کے قبرستانوں، ہندؤں کے شمشان گھاٹ اور مسیحیوں کے تابوت بنانے والوں تک لے کر گیا۔ وہ بتاتی ہے کہ تابوت بنانے والوں کا کہنا تھا کہ انھوں نہ آج تک اتنے کم عرصے میں اتنے زیادہ تابوت کبھی نہیں بنائے۔

شرما کہتی ہے کہ ‘اس سب سے زیادہ ہولناک اور صدمے والا عنصر موت تھا۔ یہاں مرنے والے کے لیے نہ کوئی پھول، نہ رشتہ دار، کچھ نہیں تھا صرف اکیلے میں موت تھی۔’

جون تک لاک ڈاؤن میں نرمی کا آغاز ہو گیا تھا اور ایک ‘نیو نارمل’ کا تصور ابھر کر سامنے آیا تھا۔ شرما نے اس عرصے کو بھی تصاویر میں قید کیا جس میں دفاتر میں کم عملہ اور اشتہاری کمپنیوں اور فلموں کی ان ڈور شوٹنگز سرگرمیوں کا دوبارہ بھال ہونا شامل تھا۔

شرما کی کتاب ، جو اگست کے آخر میں جاری کی گئی تھی اس نے دنیا کے مصروف ترین شہروں میں سے ایک کے مفلوج اور معطل ہو جانے کے وقت کو کیمرے میں محفوظ کرنے پر بہت تعریف اور پذیرائی سمیٹی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘لاک ڈاؤن کے دوران دہلی کن حالات سے گزرا ہے یہ اس کا ایک ذاتی مشاہدہ ہے۔’

تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp