کیا کرونا کی دوسری لہر یا پی ڈی ایم کے جلسوں کا خوف؟


آج کل ایک ہی بات زبان زد عام ہے کہ کرونا پھر سے پھیل رہا ہے اور چہلم گزرتے ہی پھر سے لاک ڈاؤن یا پھر سمارٹ یا میکرو لاک ڈاؤن لگ جائے گا۔ حال ہی میں کئی ممالک میں پھر سے کرونا پھیلنے اور لاک ڈاؤن دیکھنے میں آیا ہے، جن میں برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے ممالک شامل ہیں۔ پچھلے ہفتے امریکا کے صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ بھی کرونا کے شکار ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے کرونا کے ٹیسٹ مثبت آنے پر امریکا ہی میں مشکوک گردانا گیا اور اس کو صدر ٹرمپ کی جانب سے آنے والے صدارتی انتخابات میں روڑے اٹکانے کا سعی لا حاصل کہا گیا اور حال ہی میں عوامی اجتماع میں مد مقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے ساتھ مباحثے میں امنا سامنا کرنے سے فرار جیسے کلمات کا بوچھاڑ بھی اپنے سینے پر سہی ہے۔

جہاں تک امریکا کے سیاسی نظام یا آئینی نظام کا تعلق ہے تو وہ اتنا مضبوط اور غیر لچکدار ہے کہ وہ کسی کے خواہشات کے مرہون منت نہیں ہو سکتا اور نا ہی کسی شخص کو کسی ادارے پر فوقیت یا برتری حاصل ہے۔ لیکن جہاں تک ہمارے سیاسی نظام یا آئین کا تعلق ہے تو یہاں بھی لکھت پڑھت میں تو اتنی ہی سختی اور غیر لچکداری پائی جاتی ہے لیکن عملی طور پر صورت احوال اس کے بر عکس ہے۔ ہمارے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آئین کو ایک شخص ببانگ دہل کاغذ کا ٹکڑا کہہ سکتا ہے۔ آئین کے مد مقابل ”پی سی او“ یا ”ایل ایف او“ کا نفاذ کر سکتا ہے۔ کسی بھی وقت ریفرنڈم کرا سکتا ہے اور ہاں یا نہیں کے ٹھپوں کا انبار لگا سکتا ہے۔ صاحب اقتدار، حزب اختلاف کے خلاف کوئی بھی رویہ اختیار کر سکتا ہے۔

اہل اقتدار کا کوئی بھی بیانیہ درست اور حزب اختلاف کا غلط ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ”پی ڈی ایم“ کے وجود میں آنے کے بعد اور ملک گیر جلسے جلوسوں کے انعقاد کے بعد پھر سے کرونا سر اٹھا رہا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا اپوزیشن کے خلاف ایک ہتھکنڈا ہے اور عوام میں کرونا کا خوف پھیلانا ہے۔ اگر اپوزیشن کی اس بات کو تجزئیاتی طور پر آگے لے جایا جائے، تو ایک بات سامنے آ سکتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں جانب سے عوام کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ اب کرونا کی واقعی دوسری لہر ملک میں موجود ہوئی اور اپوزیشن کے اس بیانیے پر عوام بے خوف و خطر نکلتے ہیں اور کرونا ان میں سرایت کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اگر ملک میں کرونا کی دوسری لہر سرے سے ہے ہی نہیں اور حکومت سمارٹ، یا میکرو لاک ڈاؤن کرواتی ہے اور مہنگائی اور بیروزگاری کے اس طوفان میں ایک بار پھر عوام گھروں میں مقید رہتے ہیں اور گزشتہ چھے مہینے کے خوف اور مالی پسماندگی سے کچھ نکل ہی آئے تھے یا کچھ سنبھلے ہی تھے کہ پھر دو ہاتھیوں کے جنگ میں گھاس پھوس کی طرح نرغے میں آ گئے تو اس کا حساب کتاب کون دے گا؟ ظاہر ہے خمیازہ تو گزشتہ کی طرح عوام ہی نے بھگتنا ہے جیسا کہ بھگت رہے ہیں۔

اگر اب کرونا کا داؤ پیچ بھی دیگر سیاسی ہتھکنڈوں کی طرح استعمال کرنے کا روش سیاسی اکھاڑے میں آزمانا شروع ہو گیا تو پھر یہ بیماری ختم ہونے کا نام نہیں لے گی اور بار بار یہ لہر در لہر آتی رہے گی۔ منہ بند رکھنے کے لئے ماسک اور ایک دوسرے سے قریب آنے اور اجتماع، جلسے جلوسوں کو روکنے کے لئے سماجی دوری کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت اس خدشے کا اظہار بھی کر چکی ہے اور شفقت محمود ایک ٹی وی شو میں کہہ چکے ہیں کہ فضل الرحمان صاحب کو مدرسے کے بچوں کو سڑکوں ہر نہیں لانا چاہیے، کیوں کہ کرونا کی دوسری لہر کی وجہ سے بچے اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمان کو نیب پشاور کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کے سلسلے میں کال نوٹس جا چکا ہے۔ مسلم لیگ نون کے شہباز شریف کی ضمانت مسترد ہو چکی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ دیگر کے خلاف غداری کے ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ اپوزیشن اجتماعی استعفوں کی آپشن بروئے کار لانے اور سینٹ کے الیکٹورل کالج کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی کا اشارہ دے چکی ہے۔

اے این پی، آج قلعہ سیف اللہ میں ایک بھر پور جلسہ اور ایک طرح کا طاقت کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ اپوزیشن یہ بھی کہہ رہی ہے کہ لاہور سے مارچ حکومت کے گرانے کے لئے ہو گا، لیکن حکومت اپنی جگہ قدم جمائے ہوئے اور عزم بنائے ہوئے اپنے طاقت اور اقتدار کو دوام دینے کے لئے کسی بھی مہم جوئی کے لئے سینہ تھان کر کھڑی ہوئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کرونا کی دوسری لہر سیاسی نعرہ ثابت ہوتی ہے یا پھر دریا کا دوسرا کنارہ، نا خدا چپو ہاتھ میں لئے کسی بھی ہنگامی صورت احوال کے لئے بیڑا پار لگانے اور رضا کار غوطہ خور ڈوبنے والوں کو ریسکیو کرنے کے لئے ہردم تیار کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).