غالب کا خط متعلق بہ خبر نامہ (جدید)


\"naseer\"اے بھائی میرن

نہ تم آتے ہو، نہ دربار سے کوئی سندیسہ اور نہ ہی چھاؤنی سے کوئی پیام۔ آتی ہیں تو یہ ہنستی ناچتی گاتی، ٹھمکے لگاتی خبریں، بتاتی کچھ نہیں، بس ہنسے جاتی ہیں، اور اودھم مچائے جاتی ہیں۔

متھے تے چمکن وال میرے بنڑے دے۔ ہمیں تو کچھ پلے نہیں پڑا۔ پانی پت والوں سے پوچھا کہ بھانت بھانت کی بولیاں جانتے ہیں لیکن کسی بولی میں عقل سے واسطہ انہیں نہیں پڑا۔ انھوں نے التفات کیا اور ہمیں بتایا کہ کسی بڑے آدمی کو سپہ سالاری کا منصب عطا ہوا ہے۔ ہم نے صاحب منصب کا نام پوچھا تو وہ فصلوں کا ذکر کرنے لگے۔ ہم نے کہا جو بھی ہو ہمیں اس سے کیا، ہم تو تصور جاناں میں مبتلا ہیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ تمھیں تو پتا ہی ہے، اس ستم پیشہ ڈومنی کی وجہ سے کوتوالی سے ہماری کچھ نا سازی ہے، اتنی سی بات پر دھر لیے گئے ۔ اور ہم تمھیں احوال لکھتے ہیں کہ ہماری خلاصی کا کچھ انتظام کرو۔

لیکن یہ خبریں تو زندان میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ابھی کوئی گنوار اخبار پڑھتا ہوا گزرا کہ شاہینوں کے پر کٹ گئے۔ ہم نے صیاد کے ظلم پر چار قطعے اور ایک سہ غزلہ اسی وقت ہی کہہ دیا اور زندانیوں کو لگے سنانے۔ تمھاری بھی سخن فہمی سے ہمیں گلے رہتے ہیں مگر اس شہر کے لوگوں کو جانے کیا ہو گیا ہے۔ ہم ادھر داد کے منتظر اور وہ وہ ناہنجار ہنسے جاتے ہیں۔ ہمیں تو کچھ اختلاج سا ہونے لگا۔ ہماری بگڑتی حالت دیکھ کر کسی کو کچھ رحم آ گیا اور اس یزید گاہ میں کسی نے ہمیں پانی کے دو گھونٹ پلا دیے۔ ان کا رحم بھی بلی ماروں کے محلے کے ستم جیسا ہے۔ اس مے خوار بوڑھے کو پانی پلاتے ہیں۔ حد ہو گئی ہے بد تہذیبی کی۔

خیر جان غالب بنی ہی آفتیں سہنے کے لیے ہے۔ یہاں تو کسی کوجان بھی کہہ دو، اسے مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ دو چار کو ہی جان کہا، ایک سنا ہے چل بسی، دوسری مرتے مرتے بچی ہے، تیسری ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے، بس اس ستم پیشہ ڈومنی کا جگر ہے کہ رعدو برق کے لیے چشم براہ ہے۔

معاف کرنا بھائی، ہم اور ہی قصہ لے بیٹھے، زندان کی فضا ہی کچھ ایسی ہوتی ہے، کہ باد شرطہ بوکھلا دیتی ہے۔ پانی پلا کر وہ شخص ہم سے یوں مخاطب ہوا\’ چاچا، تم\"bilawal\" کچھ غلط سمجھ رہے ہو، کسی نے پر ور نہیں کاٹے، ہماری ٹیم میچ ہار گئی ہے\’۔ جانے کیوں یہ لڑکے بالے ہمیں چاچا کہتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا غصہ آیا کہ لگے وہیں ڈنٹر پیلنے کہ ذرا لڑکے کو بتائیں کہ اب اتنے بھی سن رسیدہ نہیں اور سو پشت سے سپہ گری سے متعلق ہیں۔ ہمیں ڈنٹر پیلتے دیکھ کر زندان میں خوب نعرے لگے۔

چاچا آئے گا، لوٹا پیسہ لائے گا۔

ہمیں بہت مزا آیا لیکن یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے ڈنٹر پیلنے سے انصاف کو کیسے فروغ ملے گا لیکن جب رمل میں رجز ڈال کر اتنی داد مل رہی ہو، تو پھر عروض و بحور کی کسے پروا رہتی ہے۔

یہ شور کچھ تھما تو پھر خبریں چل نکلیں۔ کسی نے دانت بھینچ کر کہا؛ جوش جوانی آئے آئے آئے، پہلے تو ہمیں دستار کی فکر ہوئی لیکن پھر صاحبقران کی بہادری کے امین ہیں، ہم نے اٹھ کر جوش جوانی والے کو دو تھپڑ رسید کر دیے۔

وہ بیچارہ حیران سے ہو کر کہنے لگا\’ چاچا پگلا گئے ہیں کا، میں تو خبر پڑھ ریا تھا، یہ تو اپنے میر زادے نے کسی فرنگن کے ساتھ تصویر کھنچوائی ہے\’۔ ایک بار تو ہمیں آگ سی لگ گئی کہ اس جاہل نے نازنینان لندن کے بارے میں اتنا درشت لفظ کیوں استعمال کیا لیکن اپنی زیادتی کا احساس زبان و بیان کی نفاستوں سے توانا ثابت ہوا جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ ہم نے پھر اس لڑکے سے طرز ابراہامی پر معافی مانگی۔ اور میرزادے کے لیے دعائیں کیں کہ پروردگار اس کا دل ناشائستگی سے پاک رکھے۔ اور میرزادے کے والدین کی شان میں ایک طولانی قصیدہ کہا جو انوری و خاقانی اگر سن پاتے تو نعرہ ہائے داد کی رستگاری میں ان کی آوازیں  بیٹھ جاتیں

لیکن بیلا چوہڑا، فتو کلال اور جھنگڑ ڈوم اور جھنڈی چاک جمائی پر جمائی لینے لگے۔ ان کی بے رخی کا دکھ اپنی جگہ لیکن پتا نہیں کیوں تمھارے اس شہر میں انھوں نے لوگوں کے ناموں کے ساتھ ان کے پیشے اس بے دردی کے ساتھ کیوں منسلک کر دیے ہیں۔

ہم نے بھی ان کی بے دلی سے بیزار ہو کر چپ سادھ لی۔ اتنے میں کسی نے پر سوز آواز میں صدا لگائی۔

گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر

بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر

یہ سنتے ہی وہ گریہ برپا ہوا کہ دنیا ماتم کدہ لگنے لگی۔ یہ شعر سن کر ہماری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے اور ہم بھی \’ آن یار دلنوازم شکریست با شکایت\’ پڑھنے \"Ghalib\"لگے۔ اس بار وہ لوگ ہم سے سختی سے پیش آئے اور ہمیں ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔ لیکن ہم کہاں چپ ہونے والے تھے کہنے لگے۔ احباب ہمیں علم ہے کہ خواجہ کو آپ نا پسند کرتے ہیں لیکن موقع کی مناسبت سے ہم مولانا کی \’ کجائید شہیدان کربلائی\’ پیش کر دیتے ہیں۔

وہ حیرت سے ہمیں تکنے لگے جیسے ہم کچھ اول فول بک رہے ہیں۔ ایک نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا\’ چاچا تم سدھرو گے نہییں، یہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں ایک خبر ہے اور تم فارسی میں جانے کیا کچھ کہہ رہے ہو، بات کو سمجھا کرو، ہر خبر کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور ہمیں اپنے رویے خبر کے مزاج کے مطابق ترتیب دینے ہیں۔

اس بار ہم خاموش ہو گئے، یہ بھی نہ پوچھا کہ یہ نگوڑی لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے۔

خبر کے بارے میں بھی کچھ نہیں بولے کہ یہ معلومات اور صداقت سے متعلق کوئی چیز ہوتی ہے۔ شعر اور خبر میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ بھانڈ پن اور شرافت بھی ایک نہیں ہوتے۔ سچ اور جھوٹ بھی دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ اور خبر سے متعلق کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔ کچھ بھی نہ کہا۔ بس لگتا ہے سب کچھ ایک ہو گیا ہے۔ ہم نے ہی کہا تھا کہ یکتائی اور یگانگت سے دوئی کی خبر نہیں رہتی۔ لیکن ہمارا کہنے کا مطلب کچھ اور تھا۔

اے بھائی میرن، ہماری تم سے التجا ہے کہ ہمارا یہ خط ان بگڑے دماغ کے میرزا صاحب کے ہاتھ نہ لگے۔ وہ تو ہر وقت ہماری تصوف پسندی کے نتائج پر کچھ نہ کچھ بکتے ہیں۔ اور اگر ہماری درگت کی انھیں خبر ہوئی تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں گے

\’ میں نے کہتا تھا میرزا نوشہ اپنے خیالات کے نتائج سے آگاہ نہیں تھے اور ان کی درگت ان کے خیالات کا ایک منطقی نتیجہ ہے\’۔

اے بھائی میرن، ہماری انگریزی اتنی فصیح نہیں ہے لیکن پلیز اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی منطقی نتیجہ ہماری بے بسی سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

تمھارا اپنا غالب

(پس دیوار زندان مگر مغلوب زنہار)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments