انڈونیشیا میں لیبر قانون کے خلاف پرتشدد مظاہرے، 200 طلبہ گرفتار


ملک کے کئی شہروں میں جاری مظاہروں میں شریک افراد نئے قانون کو مزدوروں کے حقوق سلب کرنے اور آب و ہوا کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔

انڈونیشیا میں مزدوروں سے متعلق متعارف کرائے جانے والے ایک نئے قانون کے خلاف طلبہ اور مزدوروں کا ملک گیر احتجاج پرتشدد رنگ اختیار کر گیا ہے جس کے بعد پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے 200 مظاہرین کو حراست میں لے لیا ہے۔

ملک کے کئی شہروں میں جاری مظاہروں میں شریک افراد نئے قانون کو مزدوروں کے حقوق سلب کرنے اور ماحولیات کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق دارالحکومت جکارتہ میں صدارتی محل کے قریب جمعرات کو پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں مزدوروں کے ساتھ ساتھ جامعات اور کالجز کے طلبہ بھی شریک تھے۔

مظاہرین کے صدارتی محل کی جانب بڑھنے پر پولیس نے اُنہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی جس کے بعد جھڑپوں کا آغاز ہوا۔

مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا اور خالی بوتلیں پھینکیں۔ اس دوران صدراتی محل کے اطراف شاہراہوں پر آنسو گیس کا دھواں پھیل گیا جب کہ سڑکوں پر جگہ جگہ پتھر اور بوتلوں کے ٹوٹنے سے کانچ بکھر گئے۔

جھڑپوں کے موقع پر انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو صدارتی محل میں موجود نہیں تھے۔ وہ ان دنوں مرکزی صوبے کلی منتان کے دورے پر ہیں۔

مظاہرین نے جکارتہ میں سب وے کے ایک اسٹاپ پر موجود مسافروں کی پناہ گاہ کو بھی نذرِ آتش کردیا۔

مظاہرین نے پر تشدد احتجاج کے دوران کئی سرکاری دفاتر کو بھی نقصان پہنچایا جب کہ شاہراہوں پر موجود رکاوٹوں، متعدد گاڑیوں اور ایک سنیما گھر کو بھی آگ لگا دی۔

انڈونیشیا کے سیکیورٹی امور کے مرکزی وزیر محمد محفوظ نے جمعرات کی شب ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت کسی بھی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دے گی جس میں املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔

انہوں نے پولیس یا دیگر املاک پر حملے کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا بھی عندیہ دیا۔

پریس بریفنگ کے دوران محمد محفوظ کے ہمراہ فوج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

محمد محفوظ کا کہنا تھا کہ معاشرے میں افراتفری، خوف اور انتشار پھیلانے والے اقدامات کے خلاف اور قیامِ امن کے لیے حکومت مؤثر اقدامات کرے گی۔

انہوں نے مظاہرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے حسی کی نشان دہی کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے بقول عوام کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے حالات سے نبرد آزما ہیں اور اُنہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت ہنگامہ آرائی کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی اور اُن عناصر کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جو انتشار اور مجرمانہ اقدامات کے اصل ذمے دار ہیں۔

انڈونیشیا کے نئے لیبر قانون کے خلاف جکارتہ کی طرح دیگر کئی بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یوگیا کارتا، مدان، ماکاسار، مانادو اور بندونگ میں بھی بڑی تعداد میں مظاہرین احتجاج میں شریک ہوئے جب کہ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

احتجاج کے منتظمین نے نئے لیبر قانون کے خلاف ملک بھر میں منگل سے ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر نئے لیبر قانون کو ختم کیا جائے۔

نیا لیبر قانون کیا ہے؟

متنازع قانون انڈونیشیا کی حکومت نے رواں ہفتے ہی پارلیمان سے منظور کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انڈونیشیا میں مزدوری کا نظام اور قدرتی وسائل کے انتظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متوقع ہیں۔

حکومت نے 79 مختلف قوانین میں ترامیم بھی کی ہیں جس کا مقصد حکام کے بقول سرکاری اداروں کے امور کو مزید مؤثر بنانا ہے۔

مبصرین ان تمام اقدامات کو صدر جوکو ودودو کی حکومت کی اُن کوششوں کا حصہ قرار دے رہے ہیں جن کا مقصد زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا ہے۔

انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا کا ایک بڑا ملک اور دنیا کا سب سے گنجان مسلمان ملک ہے جس کی حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

انڈونیشیا کی کل آبادی 27 کروڑ ہے جن میں سے تقریباََ نصف آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

لیبر قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے جن کا مؤقف ہے کہ نئے قانون سے مزدور متاثر ہوں گے اور ان کی کمائی میں کمی ہو گی۔ اسی طرح غیر ملکی مزدوروں کے لیے کام میں نرمی سے مقامی مزدور متاثر ہوں گے جب کہ ممکنہ طور پر کئی کام آؤٹ سورس کیے جانے کے خدشات بھی ہیں۔

مظاہرین کے بقول نئے قانون میں ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی گھنٹوں کے حساب سے ادا کی جانے والی مزدوری میں تبدیل کی جا رہی ہے۔

احتجاج کے منتظمین میں شامل ‘انڈونیشین الائنس’ کی ایگزیکٹو باڈی کے رکن خیر اللہ کا کہنا ہے کہ احتجاج کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت نیا قانون واپس نہیں لے لیتی۔

انڈونیشیا کی کرونا وائرس سے متعلق ٹاسک فورس نے حالیہ احتجاج پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے کرونا وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

انڈونیشیا میں کرونا وائرس کے تین لاکھ 30 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ جب کہ حکام نے اب تک 11 ہزار 600 کے لگ بھگ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

صرف دارالحکومت جکارتہ میں 83 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جب کہ شہر میں اب تک 1834 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa