افتخار چوہدری، جوڈیشل جمہوریت۔ میڈیائی انصاف اور بلٹ پروف مرسڈیز


\"ibrahimاسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے زیراستعمال سرکاری بلٹ پروف مرسڈیز گاڑی کو عدالت کے سامنے لانے کا حکم دے دیا ہے، مطلب یہ کہ ’’کافی مزے لے لئے بھائی، اب گاڑی واپس کرو‘‘۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کون نہیں جانتا، وہ ملک میں سب سے بڑی’’ نہ‘‘ کرنے والے چیف جسٹس کے طور پر مشہور ہوئے، لوگ تو اس نہ کے پیچھے کسی ون آن ون اشارے کی بھی بات کرتے ہیں لیکن ہم اس پر کیوں بحث کریں۔

افتخار چودھری کوعہدے سے ھٹانے کے بعد عدلیہ کی آزادی کے لئے تحریک چلی۔ اس ھلچل میں اعتزاز احسن نے’’ ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ ایک شاہکار نظم لکھی ، یہ وہی وکلا تحریک تھی جس نے علی احمد کرد جیسے دھیمے، نرم مزاج ، معصوم اور فقیر منش انسان کو باغی بنا دیا اور پھر اس نے ’’دھرنا ہوگا دھرنا‘‘جیسا جذباتی نعرہ لگا کر دھرنا دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ افتخار چودھری نے عہدے پر بحال ہوتے ہی سب سے آنکھیں پھیر لیں، پھر ایک دن علی احمد کرد کو کہنا پڑا کہ ’’عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں‘‘ یا یہ کہ’’ہماری تحریک کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا‘‘، اور اعتزاز احسن نے اپنے پکے دوست سے ناطہ توڑ لیا۔

افتخار چودھری سابق چیف جسٹس اور اب ایک عدد سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ حالت توان کی بھی شیخ رشید جیسی ہے، جماعت موجود ہے، بس لوگ نہیں مل رہے۔ جس دن مل جائیں گے، وہ بھی چھا ہی جائیں گے۔

فی الحال ہم ان کو عطا کی گئی بلٹ پروف گاڑی کی بات کریں گے۔ یہ گاڑی فرمائشی پروگرام پر ہی سابق چیف جسٹس صاحب کو ملی۔ عدالتی فیصلہ ان کے خلاف آنے کے باوجود وہ گاڑی سرکار کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ صرف گاڑی ہی نہیں، اس کا خرچہ اور تیل بھی سرکار دے رہی ہے۔

\"1890\"افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آئے تو ان کے تین وکلا دوستوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دی کہ ’’چودھری صاحب جوڈیشل ایکٹوزم کے بانی ہیں، انہوں نے کئی بڑے بڑے فیصلے دئے ہیں، جس پر لوگ ناراض بھی ہیں، ان کی زندگی کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے انہیں بلٹ پروف گاڑی دی جائے‘‘، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی سنگل بنچ نے 9 جنوری 2014 تک سابقہ چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی دینے کا حکم صادر فرما دیا۔ یہ حکم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دیا جس میں یہ بھی کہا کہ ’’اگر آئین توڑنے والوں کو بلٹ پروف گاڑی دی جا سکتی ہے تو آئین کا تحفظ کرنے والے کو کیوں نہیں دی جاتی۔ اگر ریٹائرڈ چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی نہیں دی گئی تو باقی تمام لوگوں سے گاڑیاں واپس کروا لی جائیں گی‘‘۔

عدالتی حکم کے مطابق وزارت قانون نے انہیں 2005 ماڈل کی مرسڈیز گاڑی دے دی۔ افتخار چودھری وہ واحد ریٹائرڈ چیف جسٹس تھے جس پر حکومت نے یہ مہربانی کی اور ابھی تک کر رہی ہے۔ اب تو شاید وہ اکیلے سیاستدان ہیں جو سرکاری پینشن لیتے ہیں، سرکاری گاڑی، سرکاری پیٹرول اور اس کا سرکاری خرچہ بھی لیتے ہیں اور وہ ہیں بھی حکومت مخالف کیمپ میں۔ اس وقت اس من پسند پلاٹ کا ذکر کرنا مناسب نہیں جس کے لئے انہوں نے اتھارٹیز کو کئی چٹھیاں لکھ رکھ ہیں۔

\"20070311180215mush_justice\"ہائی کورٹ کے حکم پر عمل ہوا تو اس کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ میں بھی آ گیا۔ حنیف راہی نامی وکیل نے ایک درخواست دی کہ سابق چیف جسٹس کو من مانی بنیاد پر بلٹ پروف گاڑی دی گئی ہے، لیکن اسی دوران گاڑی کے معاملے پر ہائی کورٹ میں ایک متفرق درخواست بھی دی گئی۔ عدالت عظمیٰ نےایڈووکیٹ راہی کی درخواست پر کہا کہ ہائی کورٹ نے خود ہی متفرق درخواست کا فیصلہ کرنا ہے، ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے یہ آبزرویشن ضرور دی کہ ’’ہائی کورٹ اس طرح کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں‘‘۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے متفرقہ درخواست پر سنگل بنچ کا فیصلہ معطل کردیا، مطلب یہ کہ سابق چیف جسٹس کو گاڑی نہیں دی جا سکتی۔ فیصلہ اپنے خلاف آنے کےباوجود سابق چیف جسٹس نے گاڑی واپس کرنے سے انکار کردیا اور ابھی تک وہ گاڑی ان کے پاس ہے۔\"iftikhar_chaudhry_agencies\"

افتخار چودھری کے لئے بلٹ پروف گاڑی اس لئے ضروری تھی یا ہے کہ انہیں ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں کرنا تھیں۔ وہ اسی سرکاری گاڑی میں سوار ہوکر قومی اسمبلی میں اسی وزیراعظم کے خلاف ریفرنس فائل کرنے آئے تھے جن کی منظوری سے انہیں یہ گاڑی ملی تھی۔ پھر ایک دن وہی سابق چیف جسٹس اسی گاڑی میں سوار ہوکر لاہور ہائی کورٹ گئے اور وہاں بھی وزیراعظم کی نااہلی کے لئے درخواست داغ دی۔ اس درخواست میں کہا گیا کہ’’ میان نواز شریف نے اثاثے چھپائے ہیں، وہ آئینی اعتبار سے صادق اور امین نہیں رہے‘‘۔ اس سے پہلے چودھری صاحب نے الیکشن کمیشن میں بھی ایک درخواست دی کہ ’’میان نواز شریف کے اثاثوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں، تاکہ اس کی خلاف درخواست دے کر انہیں نااہل کروایا جا سکے‘‘۔

وزیراعظم یا کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف مہیا کردہ آئینی فورم استعمال کرنا ہر شہری، سیاسی جماعت یا رہنما کا بنیادی آئینی حق ہے، لیکن میاں نواز شریف کے خلاف اس قسم کی پے در پے درخواستوں سے وہی حلقے حیران ہوئے جو دونوں کو ’’بڑا یارانہ دکھتا ہے‘‘ کے طعنے دیتے تھے۔ ان کے پرانے تعلقات کے بارے میں تو \"1100193101-1\"کئی انکشافات ہیں۔ 2007 کے وفاقی وزیر شیخ رشید ہر جگہ یہ الزامات دہراتے تھے کہ چیف صاحب اور میاں صاحب کا رانا ثنااللہ کے ذریعے مسلسل رابطہ رہا ہے۔ لیکن حکومت مخالف درخواستوں پر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ آخر بات کیا ہوئی کہ وہی شخص میاں صاحب کا سیاسی حریف بن گیا ہے جس نے اپنی بحالی کے لئے میاں صاحب کو حکومت وقت کا باغی بنا کر سڑک پر لا کھڑا کر دیا تھا۔ اگر میاں صاحب بھی کسی کے اشارے پر نکلے تھے تو پھر اس بات کو بھی سچ سمجھا جاوے کہ چودھری صاحب نے’’نہ‘‘ بھی اسی اشارے پرکی تھی۔

افتخار چودھری ہی کی وجہ سے میاں صاحب نےزرداری صاحب کو ناراض کیا۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی مفاہمت پر کلہاڑی چلانے کا پہلا کام افتخار چودھری نے کیا تھا، یہ بات میاں صاحب کو شاید برسوں بعد سمجھ میں آئی۔

افتخار چودھری میاں صاحب کے خلاف کیوں ہوئے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ جسٹس چودھری سے کئے گئے وعدہ وفا نہیں ہوئے۔ جب وہ چیف جسٹس تھے تب میاں نواز شریف نے انہی کسی بڑے منصب پر بٹھانے کا وعدہ کر لیا تھا۔ وزیراعظم نے شاید یہ کہا ہوگا کہ اب کی بار ایوان صدر میں بلوچستان کی کوئی شخصیت بیٹھے گی، اس \"1100145352-1\"بات کا کوئی چشم دید گواہ نہیں لیکن میاں صاحب نے کسی زمانے میں یہ بات ضرور کی تھی کہ صدر چھوٹے صوبے سے ہوگا، شاید بلوچستان کا ڈومیسائل رکھنے والا افتخار چودھری اس اشارے کو اپنی طرف سمجھ بیٹھا ہو۔

اس وقت افتخار چودھری کی پہچان ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی ہے، لیکن وہ پریشان حال سیاستدان ہیں۔ چیف جسٹس کے عہدے پر وہ مسلسل پانچ سات سال میڈیا میں چمکتے دمکتے رہے، وہ پورے ملک کے مسیحا بنے پھرتے تھے، جس کے لئے شعرپڑھے جاتے تھے کہ’’ عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا، فرش کے سارے خداوں سے الجھ بیٹھا ہوں‘‘۔

وہ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر کیا کیا جائے کہ میری سیاست چمک اٹھے، اخبارات میں سرخیاں اور شہ سرخیاں، ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز، ٹکرز اور پھٹے چلیں۔ وہ اس پریشانی میں ہیں کہ پہلےایسا ہوتا تھا اب کیوں نہیں؟

سچ تو یہ ہے کہ ان کی سیاست اس دن ختم ہو گئی جس دن وہ چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، ان کو جو سیاست کرنی تھی وہ کر چکے، وہ بطور چیف جسٹس ہی نہیں بطور سیاستدان بھی 11 دسمبر 2013 کو ریٹائر ہو گئے تھے۔ چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، شیخ رشید اور طاہر القادری کے ہوتے ہوئے ان کی سیاست چمکے تو آخر کیسے چمکے؟ افتخار چودھری کے بطور چیف جسٹس کئے گئے فیصلوں پر آنے والے مورخ نے بہت کچھ لکھنا ہے۔ ان کے قلم سے لکھے ہر فیصلے کی سیاہی میں سیاست کا رنگ شامل تھا۔ کراچی کے کھلے گٹر میں کسی کا پاؤں پھسلنے یا سکھر میں کسی پرچون کی دکان پر قبضہ کرنے اور عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے شراب کی بوتلیں نکلنے پر لئے گئے ازخود نوٹس کے معاملات \"image3\"متضاد اور انتقام سے بھرے سمجھے جاتے ہیں۔

وہ پرویز مشرف سے تو ذاتی منصب کے لئے الجھے لیکن انہوں نے سب سے الجھنے کو عادت بنا لیا۔ ان کا متنازعہ ترین فیصلہ تو یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرنا تھا۔ پھر کبھی کسی نے مڑکر نہیں دیکھا کہ اس مقدمے کا کیا بنا جس پر ایک وزیراعظم کو چلتا کیا گیا۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ناقص شہادتوں پر مبنی یہ فیصلہ ذاتی انا کا مقدمہ تھا۔ چیف صاحب نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نام پر دوسرے وزیراعظم کو بھی روزانہ کی بنیاد پر عدالت میں پیشیاں بھگتنے پر مجبور کردیا، اس سے پہلے چیف صاحب نے ایک سابقہ وزیراعظم کے خلاف بند مقدمات کھول کر بے رحم انصاف کے آگے جھکنے پر مجبور کردیا، 2007 میں بھی ایک وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کے الزامات میں نوٹسز کی بات ہوئی تو جسٹس چودھری کی اپنی نوکری چلی گئی۔ بحالی کے بعد بھٹو صاحب کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس سرکاری مقدمہ آیا تو اس کو طاق میں رکھ دیا۔

پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک کے سربراہ انصاف کی سب سے بڑے مسند پر بیٹھ کر ہمیشہ جمہوریت کی باتیں کرتے تھے، لیکن ریمارکس، آبزرویشن ، ٹی وی چینل کے ٹکرز اور اخبارات کی شہ سرخیوں سے قطع نظر، ماتحت عدالتوں کا نظام نہیں بدل سکا۔ ایک جج کے بقول افتخار چودھری کی بار سیاست میں مداخلت کی وجہ ماتحت ججوں کی بے توقیری کا نیا باب کھلا۔ وکلا گردی کا نیا محاورہ ایجاد ہوا۔ جسٹس چودھری کے پورے دور میں ججوں کے احتساب کا آئینی ادارہ سپریم جوڈیشل کاونسل غیر فعال رہا۔ آج پانامہ مقدمے میں جج صاحبان فرما رہے ہیں کہ اخباری تراشوں پر فیصلے نہیں دے جا سکتے لیکن \"211100_6\"ایک اخباری خبر کے بنیاد پر ہی چودھری صاحب نے رات کے اندھیرے میں عدالت لگا کر گیلانی حکومت سے تحریری یقین دہانی لی تھی کہ وہ ججز کو نہیں چھیڑے گی۔ کمرہ نمبر ایک میں کئی بار انگریزی اور اردو اخباروں کے اداریئے باآواز بلند پڑھوائے گئے۔

بینظیر بھٹو کے خلاف بند مقدمات کھولنے، یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرنے، راجا پرویز کو عدالتوں میں چکر لگوانے، تاج حیدر جیسے صاف ستھرے بزرگ سیاسی ورکر کو سپریم کورٹ کے دروازے پر ہاتھ کھڑے کرنے پر مجبور کرنے والا افتخار چودھری اب خود کسی شناخت کا متلاشی ہے۔

افتخار چودھری 1999ء میں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے غیرآئینی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت درست، جائز اور قانونی قرار دینے والے بنچ کا حصہ تھے۔ انہوں نے ایک فوجی آمر کو آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دے دی۔ افتخار چودھری جسٹس ناظم صدیقی کی سربراہی میں قائم اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پرویز مشرف کے دور میں منظور کی گئی سترھویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی منظور شدہ آئینی ترمیم قرار دے کر مداخلت سے انکار کیا۔

سترھویں ترمیم کو من و عن قبول کرنے والے جج نے آگے چل کر اٹھارویں ترمیم پر ایک سے زائد سوالات اٹھا دئے۔ انیسویں ترمیم کے خالق افتخار چودھری تھے۔ اس \"391726_pic03\"مقدمے میں چودھری صاحب نے یہاں وہاں کی بیس پچیس پارٹیوں کو فریق بننے کی اجازت دیدی، پھر ان درخواستوں پر اسمبلی کا تمام رکارڈ طلب کیا گیا، آئے دن ججوں کے ریمارکس ، آبزرویشنز اور سیاستدانوں کے لئے وہی زبان استعمال کی جاتی رہی جو آج کل کچھ بوٹ پالشی اینکر حضرات کرتے ہیں۔ جمہوریت کا نام لیوا سابق چیف جسٹس پارلیمنٹ کے لئے آئین میں ترامیم کا حق ہی تسلیم نہیں کرتا۔

آمریت کے دور میں جن معاملات پر چودھری صاحب نے تحمل دکھایا، جمھوری حکومت میں ان معاملات کو اچھالتے رہے، جعلی ڈگریوں کے معاملات کو اتنا اچھالا گیا کہ یہ تاثر ملنا شروع ہوا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے سب کے سب ممبران جاہل، ان پڑھ اور جعل ساز ہیں، پرویز مشرف کی حکومت میں متحدہ مجلس عمل کے ممبران کی اسناد کا مقدمہ تین برس میں نوٹس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ دہری شہریت رکھنے والے ممبران کی صورت میں پارلیمنٹ کو چیلنج کیا گیا۔ دوہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم شوکت عزیز سمیت آدھے سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو چار سال تک تسلیم گیا۔

افتخار چودھری نے سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیا۔ بقول قائد حزب اختلاف ’’ میمو گیٹ میں نواز شریف کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے \"391523_pic01\"درخواست دینے کا مشورہ دیا تھا‘‘۔ اسی طرح خواجہ آصف اور چودھری نثار کی ہر درخواست پر ریلیف دیا گیا ہو۔ سابق چیف جسٹس ڈوگر کہتے تھے کہ ’’میرے دور میں سپریم کورٹ کو ڈوگر کورٹ کہا جاتا تھا لیکن افتخار چودھری نے تو اسے نواز کورٹ بنا دیا ہے‘‘۔

قدرتی انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے مقصد کے لئے کوئی بھی جج نہیں بن سکتا۔ افتخار چودھری نے اپنے بیٹے کی کرپشن کہانی کا مقدمہ خود سنا۔ جب تنقید بڑھی تو مقدمہ دوسرے ججوں کے حوالے کردیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ مقدمہ سے ہوا نکال دی گئی۔ جب کوئی جج کسی اسلامی روایت کا حوالہ دے کر اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ خود سنے تو پھر انصاف کے اصولوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاھیے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments