مہنگائی، گوجرانوالہ کا جلسہ اور بدحواس حکومت


دنیا کے بیشتر ممالک کی معاشی صورت حال کے بارے میں عالمی مالیاتی فنڈ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سال رواں کے دوران مہنگائی میں اضافہ ہوگا جبکہ آئندہ برس بھی بے یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ رپورٹ میں پاکستان میں بیروزگاری میں اضافہ کی خبر بھی دی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت مہنگائی کو ملک کے ’ذخیرہ اندوزوں‘ کا کارنامہ قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے گریز کررہی ہے یا وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹائیگر فورس کو قیمتوں کی پڑتال کرنے اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔

ٹائیگر فورس کو ملک میں قیمتوں کی نگرانی کا مشورہ دے کر وزیر اعظم نے اس سنگین انتظامی و سیاسی مسئلہ کے بارے میں دراصل حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیاہے۔ اگر مارکیٹ میں اجناس وافر مقدار میں دستیاب ہوں اور ان کی سپلائی کا ایسا نظام موجود ہو کہ کسی وقت گندم یا دیگر ضروری اجناس کی قلت کا اندیشہ موجود نہ ہو تو کوئی تاجر ’ زخیرہ اندوزی‘ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ البتہ جب گندم کی کٹائی کے فوری بعد اناج کی فراہمی میں تعطل واقع ہوجائے اور وفاقی حکومت، سندھ  پر گندم کی فراہمی روکنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے غلط فیصلوں کی تفہیم پر تیا رنہ ہو تو ایسے میں ضروری اجناس کی ذخیرہ اندوزی ہونا فطری بات ہے۔ تاہم ملک میں موجودہ مہنگائی صرف اجناس کی کمیابی یا قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا نہیں ہورہی بلکہ ہر شعبہ میں قیمتیں عام شہری کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کا حصول چونکہ ہر ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کس و ناکس اناج کی قلت یا ہوشربا مہنگائی سے متاثر بھی ہوتا ہے، اس کی قلت یا قیمتوں میں اضافہ کا لامحالہ اثر دیگر شعبوں اور خدمات پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

پاکستان جیسے زرعی ملک میں جہاں آمدنی کی شرح ضروریات زندگی کی عالمی قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، حکومتوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ مناسب انتظام یا رعایتی قیمتوں کے ذریعے لوگوں کے لئے گندم اور دیگر خوردنی اشیا کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ عام لوگ کم آمدنی کے باوجود کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہ کریں۔ موجودہ حکومت اپوزیشن کے خلاف اختیا رکئے گئے سیاسی ایجنڈا کی تکمیل میں اس حد تک مصروف رہی ہے کہ اسے اس بنیادی حکمت عملی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ اب یہ مسئلہ دو طرح سے سنگین صورت اختیا رکرچکا ہے۔ ایک تو بیروزگاری کی شرح بڑھنے سے غریب و اوسط خاندانوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے یا ختم ہوچکی ہے اور دوسرے اجناس کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے رسد و مانگ میں توازن قائم نہیں رکھا جاسکا۔ حکومت اس عدم توازن کا ذمہ دار اپنے سوا کسی دوسرے کو قرار نہیں دے سکتی۔ اس کے باوجود شدید مہنگائی کے عالم میں ذخیرہ اندوزوں کو متنبہ کرکے اور لیکچر دے کر اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ پالیسی چونکہ عوام کی فوری مشکل میں کمی نہیں کرسکتی، اس لئے ان کے غم و غصہ میں اضافہ بھی فطری ہے۔

دلچسپ بات ہے یہ کہ ملک میں مہنگائی کے مسئلہ پر ’حقائق ‘ پیش کرنے کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج پریس کانفرنس منعقد کی اور ’ذخیرہ اندوزوں‘ کو متنبہ کیا کہ حکومت نے گندم اور چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے لہذا وہ اجناس کو گودام میں بند رکھ کے منافع کا انتظار نہ کریں ورنہ انہیں شدید مالی نقصان ہوگا۔ گویا ملک کا وزیر خارجہ اوسط درجہ کے تاجروں کو کاروبار کی مبادیات سمجھا رہا ہے اور خود یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ حکومتی فیصلوں کے کسی بھی ملک کی منڈی پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے بارے میں لین دین کرنے والے تاجر، سرکاری اعلان یا انتباہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ کسی ملک کی عمومی مالی صورت حال سے پیدا ہونے والے افراط زر کی وجوہ کو صرف کسی ایک جنس کی قلت دور کرنے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے حکومتی پالیسیوں کے علاوہ ملکی معیشت، پیداوار ی صلاحیت، سرمایہ کاری، روزگار اور حکومت کی مالی استطاعت کے سب پہلوؤں پر غور کرنا لازم ہوتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے دو سالہ دور حکومت میں معاشیات کا بنیادی سبق پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ جب بھی آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کم ہوگی تو فرد ہو یا معاشرہ، اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو طویل عرصہ سے اس صورت حال کا سامنا ہے لیکن موجودہ حکومت کے دور میں حالات سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ چینی کی برآمد، سبسڈی اور اب درآمد، اسی طرح گندم کی قیمت خرید کے تعین، بروقت خریداری سے گریز اور صارفین تک فراہمی کے میکنزم کو فعال بنانے میں ناکامی، ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے حکومت ان اجناس کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی چینی اور گندم کی قلت کو سیاسی رنگ دے کر نعرے بازی تو کی گئی لیکن ان بنیادی مسائل سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی جن کی وجہ سے منڈی میں چینی یا گندم کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یا تو مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں کو دھمکیاں دی جاتی رہیں یا وزیر اعظم کو یہ سبق رٹایا جاتا رہا کہ قومی مالیاتی خسارہ کم ہوگیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ معیشت درست راستے پر گامزن ہے۔ عمران خان یہ سبق دہراتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے سابقہ حکومتوں کے پیدا کردہ مالی بحران پر قابو پالیا ہے۔ اب ملک معاشی بحالی کی طرف گامزن ہوچکاہے۔ حالانکہ قومی پیداوار یا حکومتی آمدنی میں قابل ذکر اضافہ کے بغیر مالی خسارہ کم ہونے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ملکی معیشت کساد بازاری اور تعطل کا شکار ہے۔ موجودہ مہنگائی حکومتی بدانتظامی کے علاوہ اسی معاشی تعطل کا نتیجہ ہے۔

بدقسمتی سے جو مسئلہ حکومتی ایجنڈے پر سر فہرست ہونا چاہئے تھا، اس کا ذکر ضمنی طور سے کیا جاتا ہے۔ اب بھی وزیر اعظم کا سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کا اتحاد اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے شروع کیا جانے والا احتجاج ہے۔ ابھی اپوزیشن کی تحریک کا آغاز نہیں ہؤا لیکن تمام سرکاری مشینری کو بروئے کا ر لاکر دو روز بعد گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسہ کو ناکام بنانے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ حالانکہ حکومت اگر مضبوط بنیاد پر استوار ہے، اداروں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی مثالی ہے اور اس کی پالیسیوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے والے ہیں تو ہر سرکاری نمائیندے کے حواس پر گوجرانوالہ کا جلسہ کیوں سوار ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وزیر خارجہ کا کام وزیر اعظم کے ناتجربہ کار معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف کے سپرد کرکے شاہ محمود قریشی ملک میں اجناس کی فراہمی اور حکومت کی فعالی پر پریس کانفرنس منعقد کرنے پر مامور ہیں؟ اسی طرح اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے انتخاب کو ایسی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جیسے سلامتی کونسل سے کشمیر کے سوال پر بھارت کے خلا ف کوئی حکم نامہ حاصل کرلیا گیا ہو۔

وزیر اعظم عمران خان اگر غور کرسکیں تو انہیں معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کی حکومت اپوزیشن پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کررہی ہے، عام آدمی اسے اپنے گھر یلو بجٹ کے خسارہ کی روشنی میں پرکھنے پر مجبور ہے۔ جب تک ملک میں عام لوگوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوں گے، سفارت کاری اور خارجہ تعلقات میں کامیابی کے بلند بانگ دعوے کسی حکومت پر اعتماد بحال نہیں کرسکتے۔ حکومت اگر بدعنوانی کے الزامات پر اصرار کرنے، اپوزیشن لیڈروں کو دھمکانے یا انہیں غداری کے مقدمات میں ملوث کرنے پر صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے، عوام کو ریلیف دینے کے ٹھوس منصوبوں پر کام کرتی تو اپوزیشن کے احتجاج کا مؤثر جواب دیا جاسکتا تھا۔ 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کے بعد سے عمران خان کی قیادت میں جارحانہ طرز عمل اختیار کرکے دراصل اپنی شدید پریشانی اور ناکامی کا اقرار کیا گیا ہے۔ حکومت ابھی تک اس غلط حکمت عملی کا ادراک نہیں کرسکی۔ گوجرانوالہ کا جلسہ ہی اس وقت عمران خان کے اعصاب پر سوار ہے۔ یہ بدحواسی اس جلسہ کو وقت سے پہلے ہی کامیاب کروانے کا سبب بن رہی ہے۔

ملک میں سیاسی تصادم سے نکلنے کا واحد راستہ مفاہمت اور بات چیت کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی ترجمانوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر حزب اختلاف سے سیاسی مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان کا بدستور یہی مؤقف ہے کہ اپوزیشن سے سیاسی معاملات پر بات چیت کا مقصد دراصل اپوزیشن کو کرپشن مقدمات میں ریلیف دینا ہوگا۔ جسے وہ ابھی تک’ این آر او نہیں دوں گا‘ کے نعرے کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ عمران خان کو سیکھنا پڑے گا کہ ہر نعرے کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی کشش کھونے لگتا ہے۔ کرپشن اور این آار او نہ دینے کے نعرے بھی اب کثرت استعمال سے متروک ہوچکے۔

 اپوزیشن کے ساتھ لین دین پارلیمانی نظام حکومت کا لازمی حصہ ہے۔ پارلیمنٹ میں ووٹروں کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی اپوزیشن کو چور اچکے قرار دے کر مسترد کرنے سے جو ٹکراؤ پیدا ہوگا، اس کا نقصان حکومت کے سوا کسی کو نہیں ہوگا۔ اس تصادم کے بعد جب حکومت مصالحت کی طرف آنا چاہے گی تو شاید وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali