چند لمحوں کی سویلین بالا دستی


12  اکتوبر 99ء کی شام، نئے آرمی سربراہ کی تقرری کی خبر پی ٹی وی سے نشر ہو چکی تھی۔ انگریزی خبریں شروع ہونے کا وقت قریب آ پہنچا تھا، مجھے اطلاع دی جاتی ہے کہ ایک باوردی فوجی افسر نیوز کنٹرول روم میں داخل ہو گئے ہیں اور آرمی چیف کی خبر کو نشر ہونے سے روکنے کا حکم جاری فرما رہے ہیں۔ چند ہی لمحوں میں، میں بھی پی ٹی وی سٹیشن اسلام آباد کی عمارت میں داخل ہو رہا تھا، پورچ میں ایک فوجی گاڑی اپنی چھت پر بندوق سجائے کچھ مسلح جوانوں سمیت موجود تھی، نیوز کنٹرول روم میں داخل ہوا تو تمام اہل کار بت بنے اپنی نشستوں پر یوں موجود تھے جیسے کلاس روم میں ہیڈ ماسٹر کی اچانک آمد پر پرائمری کے بچے ہوں، دو چار باوردی افسر کے گرد نظریں جھکائے با ادب حکم بجا لانے کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔

میں نے افسر سے اپنا تعارف بحیثیت چیئرمین پی ٹی وی کے کراتے ہوئے ان کی ایک غیر متعلقہ کام میں مداخلت بے جا کا سبب دریافت کیا۔ انہوں نے نیم گھبرائے انداز میں اپنا تعارف میجر نثار کے طور پہ کراتے ہوئے بتایا کہ خبر رکوانے کا حکم انہیں ”اوپر“ سے دیا گیا ہے، میں نے انہیں کہا کہ اس ادارے میں ”اوپر“ میں ہی ہوں اور میں ان کی کسی مدد کا خواہاں نہیں ہوں۔ لہذا وہ مہربانی سے تشریف لے جا سکتے ہیں، میجر صاحب نے ”اوپر“ والی بات کو دہرایا تو میں نے دوبارہ انہیں یاد دلایا کہ یہاں ”اوپر“ میں ہوں، میرے اوپر وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین اور ان کے اوپر وزیراعظم نواز شریف ہیں، افسر نے بوکھلائے ہوئے اپنی بات کو تیسری دفعہ دہرایا تو میں نے انہیں مسکراتے ہوئے پوچھ لیا کہ ہم سب سے اوپر تو اللہ تعالی ہیں، کیا آپ کو حکم وہاں سے آنا شروع ہو گے ہیں؟

ابھی افسر صاحب میرے سوال سے ہی نہ سنبھل پائے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال نیوز کنٹرول روم میں اپنے پورے فوجی جاہ و جلال کے ساتھ داخل ہوئے اور کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے میجر نثار اور ان کے ساتھیوں کو کسی دوسرے کمرے میں لے جانے کے فاتح ٹھہرے۔ سویلین بالا دستی کی اس بحالی کو غنیمت جانتے ہوئے میں نیوز سٹوڈیو کی طرف لپکا، انگلش کا خبر نامہ اپنے اختتام کے قریب تھا کہ مجھے دیکھتے ہی نیوز ریڈر شائستہ زید نے خوشی سے تمتماتے ہوئے اعلان کیا ”سر میں نے خبر پڑھ دی ہے“ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پی ٹی وی کی سکرین سے تصویر اور آواز دونوں ہی غائب ہو گے۔

مجھے بتایا گیا کہ نشریات گاہ پر قبضہ کر لیا گیا ہے، میں اپنی نشست گاہ کی کھڑکی سے جوانوں کو گیٹ پھلانگتے اور اندر داخل ہوتے بھی دیکھ رہا تھا، چند لمحوں کی سویلین بالادستی نگوں ہو رہی تھی۔ راہداریوں میں بندوق بردار جوانوں کی چہل قدمی جاری تھی، اسی اثنا میں ایک افسر اس دفتر میں داخل ہوا اس نے یہ تصدیق کی کہ میں ہی پرویز رشید ہوں، باہر کی دنیا سے میرا واحد رابطہ کھڑکی کو بند کرنے اور راہداری میں کھلنے والے دروازے کو کھلا رکھنے کا حکم جاری کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہو کر مجھے وہیں بیٹھے رہنے کی ”میزبانہ“ پیشکش فرما دی۔

دو بندوق بردار جوان دروازے پر تعینات کر دیے گے، دونوں نے بندوقیں میری چھاتی کی جانب تان رکھی تھیں۔ دروازے کے کھلا ہونے کے سبب مجھے سویلین اور فوجیوں کو ایک ہی پیج پر دیکھنے کی سہولت بھی میسر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاتح کے نمائندوں اور مفتوح کے درمیان اعتماد کی بحالی کے ابتدائی مراحل کا آغاز یوں ہوا کہ سگریٹ کی ترسیل پہ لگی پابندی کو نرم کر دیا گیا اور راہداری میں صحافیانہ سرگرمیوں میں مصروف محمد مالک اور ابصار عالم نے یہ اضافی ذمہ داری نبھانی شروع کر دی۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، جب ایک افسر نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا، جیپ وہ خود ڈرائیو کر رہے تھے۔ میں ساتھ والی نشست پہ بٹھایا گیا تھا اور اپنے فوری مستقبل کو جانچنے کی فکر میں گم تھا۔ گولی، تشدد یا حراست، چند ہی لمحوں میں اس معمہ کو حل ہو جانا تھا، گاڑی پارلیمنٹ لاجز کے پورچ میں رک چکی تھی، مجھے میرے ہی فلیٹ میں بند کر دیا گیا، ٹیلیفون منقطع کر دیا گیا دروازے پر درجن کے لگ بھگ جوانوں کو تعینات کر دیا گیا۔ اگلے دو ہفتے میں باہر کی دنیا سے بے خبر اور میرے گھر والے میرے سے بے خبر میری کہیں بھی موجودگی کی تلاش میں سرگرداں رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).