ہم اڈا عبور کیوں نہیں کر سکتے؟


\"\"

ابھی مغرب ہونے میں دیر کچھ پرندوں کے گھر پہنچنےکے فاصلے برابر تھی
امی نے کہا ملکا جا۔ نانی کے گھر سالن دے آ۔
ملک سے بگڑا لفظ ملکا ہمارے ہاں مائیں غصے میں بطور طنز استعمال کرتی ہیں اور ایسا زبردست آزمودہ طنز کہ مانند تیر جگر کے آر پار ہوتا ہے۔
ملکا دانت پیستا اٹھا۔ سالن کی پلیٹ ہاتھ میں لی اور یونہی خود کلامیاں کرتا نانی کے گھر کی جانب روانہ ہوا۔
ہمارے گھر سے نانی کا گھر چار گلیاں تھا۔ دوسری گلی گاؤں کی مرکزی گلی تھی اور شاہراہ تھی۔ نانی کے گھر تک جانے کے لیے یہی سب سے بڑی گلی تھی۔ ابھی گلی میں قدم رکھا ہی تھا کہ نصیب پھوٹ گئے اور سامنے اڈا نظر آیا۔ اڈا بنیادی طور شاید لفظ اَڑا سے نکلا ہو لیکن ہم اسی غلط العام۔ اڈا۔ کو ہی استعمال کریں گے۔ کچھ غلط العام لفظوں میں سماج کا اجتماعی شعور معانی کے جہاں پرو دیتا ہے اور اصلی لفظ اس اندھیر نگری کو دیکھ کر خود کشی کر لیتا ہے۔
اڈا کچی گلی میں آر پار کھینچی ایک لکیر کو کہتے تھے جو کوئی بچہ پاؤں کی جوتی سے آر پار لگا دیتا ہے۔ اس کا مطلب ماسوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوتا کہ آپ اس کو عبور نہیں کر سکتے اور کریں گے تو آپ کی خاندان کی عورتوں کے جنسی رویوں پر اڈا لگانے والی کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوں گی۔ اس میں کچھ ابھی مزید تکنیکی پیچیدگیاں ہیں جن کو فی الحال رہنے ہی دیں۔
ہم نے بچپن میں کبھی نہیں سنا کہ کسی بچے نے اڈا عبو ر کیا ہو۔ اس کا حل صرف یہ تھا کہ متبادل گلیوں میں راستے تلاش کیے جائیں، یا جہاں گلی میں لکیر دیوار کے پاس ختم ہوتی ہے وہاں کچی دیوار میں کوئی ایسا پتھر تلاش کیا جائے جو باہر نکلا ہو جس پر پاؤں کی دو انگلیاں رکھنے کا ہی سہارا مل جائے۔
مائیں بچوں کو کسی نہ کسی کام بھیجتی اور آدھے گھنٹے میں ہو جانے والا کام آدھا دن لے لیتا۔
ماؤں سے کیا چھپا رہ سکتا ہے وہ جانتی تھیں اور گالیاں نکالتی تھیں۔ جونہی کسی بھی عورت کی گذرتے ہوئے گلی میں کھچی لکیر پر نظر پڑ جاتی تو یہ کہتے ہو ئے مٹاتی جاتی ۔ حرامی نہ ہوون تاں۔ کتے کے بچے ہیں سارے کے سارے۔
ماؤں سے کیا چھپا رہ سکتا ہے وہ جانتی تھیں لیکن۔ وہ صرف اتنا جانتی تھیں کہ ایک لکیر ہوتی ہے جس کو یہ حرامی لوگ اڈا کہتے ہیں اور اس کو عبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کو عبور کر نے کی صورت میں ان کی عفتوں پر کیا قیامتیں آسکتی ہے۔ بچے تو ماؤں بہنوں کی عصمتوں کی حفاظت کےلیے یوں جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے ہیں۔
معلوم نہیں کون ستم ظریف بچپن کو بے فکری کی عمر کہتا ہے اپنے گاؤں میں تو بچوں کو بچپن سے ہی عظیم ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا ہے۔ سانس چڑھا ہوا ہے حواس باختہ ہیں جسم پسینے سے شرابور۔ اڈے سے بچنے کے لیے کبھی ایک گلی میں راستہ تلاش کر رہے ہیں تو کبھی دوسری گلی میں۔ اگر ہرطرف گلیوں میں اڈے ان کا راستہ روک دیتے تو معصوم مختلف گھروں میں لگی سیڑھیوں سے چھتوں پر جا پہنچتے اور دس بارہ چھت عبور کر کے کسی گھر کی سیڑھی سے اتر کر ایک اور گلی میں اترتے۔
اب چاردیواریاں بہت اونچی ہو گئی ہیں وگرنہ جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت گاؤں میں کس کو فکر کہ یہ کس کا بچہ ہماری چھت پر کیوں چڑھ یا اتر رہا ہے۔
وہ کہانی تو کہیں بیچ ہی میں رہ گئی۔ میں سالن کی پلیٹ تھامے اس اڈے کے پاس بیٹھا تھا۔ متبادل گلی میں جانا بے کار تھا کہ وہاں اڈے سے بھی زیادہ بھیانک چیلنج ایک کتیا کی شکل میں تھا جو چار پانچ افراد کو کاٹ چکی تھی۔ پریشانی کا عالم تھا۔ میں اکڑوں بیٹھا تھا جب دورسے امی آتی دکھائی دی۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا تو اکڑوں بیٹھے ہونے کے سبب تک پہنچنے میں انہیں ذرا دیر نہیں لگی۔ جوتی اتاری اور ہوا میں میری طرف اچھال دی جو مجھے یقینا نہیں لگی کیونکہ بچوں کی جانب جوتی پھینکتے وقت ماؤں کے نشانے ہمیشہ کچے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آکر اڈے کو صاف کیا اور اڈا بنانے والے کو گالیاں نکالیں۔
اڈا صاف کیا ہوا جی ہلکا ہو گیا۔ جیسے زندگی کی بے اعتنائی سے لاچار کوئی خود کشی کرنے جا رہا ہو اور اچانک زندگی اس کے سامنے امکانات کے ڈھیر لگا دے۔
بہرحال اس قصے کی جزئیات کو ہم بطور علامتیں استعمال کر کے فلسفیانہ توجہیات پیش نہیں کریں گے جیسے گلیاں علم و عقل و دریافت کا استعارہ ہیں۔ اڈا لگانے والے خوف کے بیوپاری ہیں جو غیر عقلی غیر منطقی خوف سے علم و دریافت کے راستے مسدود کر تے ہیں۔ نسلیں خوفوں کو نہیں پچھاڑپاتیں کہ خوف طاقتور ہوتے ہیں۔ نسلیں خوفوں کا احترام کر نے کے ساتھ ساتھ علم و عقل کے راستوں کو اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی قومیں دہرے معیارات اور راستوں کو طول دینے میں شہرت رکھتی ہیں۔ مائیں وہ پرانی نسلیں ہیں جو آدھا سچ جانتی ہیں۔ بچے وہ جدید نسل ہے جو دیانت دار ہےاتنی دیانت دار کہ بہ یک وقت خوف کے بیوپاریوں کی کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا بھی احترام کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ساتھ دریافت کے سفر کو بھی ممکن بنانا چاہتی ہے۔ سانس چڑھا ہوا ہے حواس باختہ ہیں جسم پسینے سے شرابور۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments