آنسو: کرونا وائرس سے منسوب


ماہ نور کی حسین آنکھوں کی چمک کچھ پھیکی سی پڑ گئی تھی، ان نوکدار طلسمی آنکھوں نے تاروں کی جو نوک جھوک دیکھ رکھی تھی وہ بصارت پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئی۔ پل بھر میں سماں بدل گیا! سماں نہیں، لگتا تھا کہ آسماں ہی بدل گیا۔ پیروں تلے کی زمین نکل گئی، وسیع تر کہکشاں کچھ گھپ سی ہو گئی، فضاء جو پر کیف تھی پر حیف لگنے لگی۔ اسے ناز تھا جس آنکھ کی نزاکت کا، وہ عالم نزع دیکھنے لگی، باد نسیم و شمیم کے جھونکوں سے لہلہانے والی زلفیں اب سوکھی جھاڑ کی طرح اکڑ سی گئیں تھیں، پھرتیلا بدن ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

نہ ہی ہوا کا کوئی تصور، نہ ہی روشنی، جسم اکڑا اکڑا سا، سانس اکھڑی اکھڑی سی جیسے اس عالم کو کسی تابوت میں بند کر کے زمین کی گہرائیوں میں کہیں دھنسا دیا گیا ہو۔ اس سب نے اس کے ذہن کی ذہین بساط کو بھی مخلوط کر چھوڑا تھا۔ رونے کی بہت دیر بعد اس حسین، جمیل، وسیع اور فصیح آنکھ سے ایک قطرہ بہا، عجیب یہ تھا کہ وہ کسی بے گھر جگنو کی طرح ہلکا ہلکا ٹمٹما رہا تھا۔ ایک طرف سے چمک تھی اور دوسری طرف سیاہ پتھر کی مانند سخت اور گھپ تھی۔

اس نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا۔ جب آنسو کا وہ قطرہ جا کہ زمین کو بوسہ دیتا ہے تو یک لخت ہر طرف تند سفیدی چھا جاتی ہے۔ اور وہ دیکھتی ہے کہ ہر طرف دھند ہی دھند ہے اور جا بجا نہایت ہی خوش شکل انسانوں کے لاشے بکھرے پڑیں ہیں۔ کچھ میں ابھی سانسیں ہیں مگر پھولی ہوئی جو انہیں زندہ نہ رکھ پائیں گی۔ ماہ نور کوشش کرتی ہے کہ کسی طریقے سے انہیں بچائے مگر جوں ہی قریب جانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے ہاتھ پتھر کی مانند ہونے لگتے ہیں، وہ جھٹ سے ہاتھ پیچھے ہٹاتی ہے اور ان سے فاصلے پر چلنے لگتی ہے۔

اور انہی میں اس کے پیارے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی طرف وہ لپکنا چاہتی ہے مگر ان کے ہاتھ سے نکلنے والی زہریلی شعائیں اسے ان کے قریب نہیں جانے دیتیں۔ اسے لگتا ہے کہ وہ مر گئی ہے اور گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ہے جو اسے بہت غم زدہ کر دیتا ہے۔ لیکن اچانک اس کی نظر ایک سیاہ تختے پر پڑتی ہے جسے دیکھتے ہی اس کی حیرت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور آنکھ میں چمک کی کرن امڈ آتی ہے۔ وہ لکھا تھا

قیامت 20 گز کے فاصلے پر

اس سے اسے یہ تسلی تو ہو گئی کہ وہ دوزخ میں نہیں ہے مگر اس کی حیرانی میں اضافہ ہو گیا۔ اس لاشوں سے بھرے ویرانے میں چلتے چلتے وہ تھک سی گئی تھی۔ اسے ایک اجڑا درخت نظر آیا جیسے اسے کسی بیماری نے ختم کر دیا ہو۔ اسی درخت سے متصل ایک کٹیا بھی تھی۔ جس سے ٹیک لگا کے وہ کچھ سستانے لگی۔ اسی درخت پر ایک پرانی مگر سبز، شاخ نظر آئی۔ یہ پورے درخت سے تھوڑی الگ تھلگ تھی۔ اس شاخ پر سے شبنم ٹپک رہی تھی جس کے چمکتے، دمکتے، حسین قطرے روشن تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ شاخ اپنے پورے درخت کے سوکھنے کا رونا رو رہی ہو اور سب شاخوں کی طرف سے توبہ کر رہی ہو، اپنی نسل کی ہری جڑوں کا واسطہ دے رہی ہو، جن گناہوں کی وجہ سے باقی سب کی سب سوکھ گئی ہوں ان سے توبہ طلب کر رہی ہو۔ اس کا زار زار رونا چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہو اگر یہ آنسو دور ہریالی میں بہائے جاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ ابھی وہ اسی سوچ میں تھی کی اس کٹیا میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص روتا ہوا باہر نکلا اس کے چہرے پہ نور عیاں تھا اس نے ایسے لڑکی کے سر پہ ہاتھ پھیرا جیسا کہ وہ اسے پہلے سے جانتا تھا۔

اور کہنے لگا ماہ نور بیٹا! (وہ چونک سی گئی) تم جیسے کئی مہتاب اپنی پیشانیوں کا نور کھو چکے ہیں، اب پیشانیاں رب کے ہاں نہیں جھکتیں، آنسو پروردگار کے سامنے نہیں بہتے اسی لیے قیامت سے پہلے لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ تم اس درخت کی ہری شاخ جیسی ہو جس کا آنسو گرا اور اللہ نے قیامت سے پہلے تمہیں توبہ کی توفیق دی۔ تم نے دیکھا کہ اپنوں کے پاس ہو کر بھی تم ان کی نہ تھی یہ قیامت کی نشانی ہے! ماہ نور گہری سوچ میں پڑ گئی اور اپنا دم سنبھالنے لگی۔ وہ بابا جی سفید چادر ماہ نور کے سر پر اوڑھ دیتے ہیں۔

خالد جنید
Latest posts by خالد جنید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).