ٹرمپ، پراپرٹی کا کاروبار اور پاکستان


\"wisi-baba\"

پاکستان اس وقت کروٹیں لیتا انگڑائیاں لیتا بیدار ہو رہا ہے۔ وہ بھی امکانات کا اک جہان ساتھ لیکر۔ ہم بس امن و امان سیاسی استحکام کو یقینی بنا لیں۔ ہمیں اب ترقی کرنے سے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ برا ہو چیکو اینکروں کا جو سات سے گیارہ ٹی وی پر چیخیں مارتے ہیں۔ نت نئی بتی کے پیچھے سب کو لگائے رکھتے ہیں۔

یہ حضرات دعوے کرتے ہیں۔ وہ غلط ثابت ہوتے ہیں پر ڈھیٹ ہیں۔ شرمندہ نہیں ہوتے نیا دعوی کر دیتے ہیں۔

سیاستدانوں حکمرانوں نے میڈیا کی ایسی حالت ہو جانے پر اسے اعتماد میں لینا چھوڑ دیا ہے۔ الٹا انہیں غلط خبریں فیڈ کرائی جاتی ہیں۔ وہ اسے لے اڑتے ہیں اور بعد میں بغلیں جھانکتےہیں۔ مریم نواز مسلم لیگ نون کا میڈیا سیل دیکھتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو جو الوداعی عشایہ دیا گیا، مریم نے اس عشایے میں شریک جنرل اشفاق ندیم اور جنرل جاوید رمدے کی وزیر اعظم کے ساتھ بہت خوشگوار موڈ میں فوٹو ٹویٹ کر دی۔

مریم نواز کی اس ٹویٹ نے کھلبلی مچا دی۔ چھوٹے سر بڑے بڑے ٹڈ والے سیٹھوں نے ان دونوں جرنیلوں پر شرطیں لگانی شروع کر دیں۔ بعد میں ایک دوسرے کو شرمندہ شرمندہ دیکھتے رہے۔ مریم نواز نے بہت آرام سے میڈیا کے لوگوں کا مذاق بنایا جو آج کل خبر کی تلاش نہیں کرتے اپنی خواہشات بیان کرتے ہیں۔

اج کل میاں نوازشریف نئے سرے میڈیا یلغار کی زد میں ہیں۔ اس بار ان پر یلغار ٹرمپ کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک بات چیت کی خبر چلانے پر ہو رہی ہے۔ سفارتی سیاسی چالوں کے پرانے واقف نصرت جاوید نے آج اس صورتحال کا اپنے کالم میں جائزہ لیا ہے۔ ان کے بقول نوازشریف پر تنقید صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہی۔ امریکی میڈیا یہ کام زیادہ جوش وجذبے سے کر رہا ہے۔

نصرت جاوید کا یہ ماننا ہے کہ امریکی میڈیا اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کے ہاتھوں سراسیمگی کا شکار ہیں۔ ٹرمپ نہ صرف ان سب کے اندازوں کے برعکس الیکشن جیت گیا ہے، بلکہ الیکشن جیتنے کے بعد اپنے غیر روایتی طرزعمل کو جاری بھی رکھے ہوئے ہے۔ طے شدہ سفارتی طور طریقوں کو نظرانداز کر رہا ہے۔

پاکستان میں طاقت کے سب کھلاڑیوں سے ایک بڑی اور ایک بری غلطی ہوئی تھی۔ امریکی الیکشن کے دوران پاکستان کے تمام اہم حلقوں نے اپنی امید کے سارے انڈے ہیلری کلنٹن کی ٹوکری میں ڈال دیے تھے۔ جب ٹرمپ غیر متوقع طور پر الیکشن جیت گیا تو سب کے ہی ہاتھ پیر پھول گئے۔ امریکی نظام سے واقف لوگ ٹرمپ انتظامیہ میں اپنی جان پہچان کے لوگوں کی نشاندہی میں مشغول ہو گئے۔

ہمارے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم سے نئے امریکی صدر کا رابطہ ہو گیا۔ یہ رابطہ اتنا خوشگوار رہا کہ اس کی خبر چلا کر اہم جگہوں پر پیغام پہنچانا ضروری ہو گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ بھی تھی پاکستان مستقبل میں سرمایہ کاروں کے لئے ایک پرکشش مقام بننے جا رہا ہے۔ ایسے میں ایک پاکستان مخالف امریکی صدر بہت برا تاثر بنا کر ہمارے امکانات کو محدود کر دیتا۔

ٹرمپ سے رابطہ کیسے ہوا۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اصولی طور پر تو یہ رابطہ ملک ریاض کے ذریعے ہونا چاہیے تھا۔ سیریس نہ ہوں یہ ایک مذاق ہے لیکن اتنا غیر سنجیدہ بھی نہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کام کرنے والا کاروباری فرد ہے۔ اب تک بھارت ترکی اور مختلف ممالک میں اس نے جو ابتدائی رابطے کیے ہیں، جو لوگ اہم ہو کر سامنے آئے ہیں۔ ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح پراپرٹی کے اس کام سے ہی ہے جس کا تعلق نئے امریکی صدر سے ہے۔ ترکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ترکی میں بزنس پارٹنر کو ہی امریکہ میں اپنا نیا سفیر مقرر کر دیا ہے۔

اب کئی ملین ڈالر کا ایک سوال یہ ہے کہ رابطہ کس نے کرایا۔ پاکستانی کونسا اتنے گئے گذرے ہیں کہ انہیں سمجھ نہ آ رہی ہو کے راستہ کدھر سے بنانا ہے۔ اب آپ خود پراپرٹی کی گردان سن سن کر شاید ملک ریاض کا ہی سوچ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ایسا ہوتا بھی تو کوئی بری بات نہ تھی۔

ایک اور پاکستانی بھی ہے جو پراپرٹی کا ہی کام کرتا ہے۔ پاکستان سے باہر رہتا ہے اس کا شریف فیملی سے ہی تعلق ہے۔ خیر جانے دیں کیا فرق پڑتا ہے کہ رابطہ کون کیسے کر رہا ہے۔ یہ رابطے خیر کا باعث ہوں جس طرح ان کا اعلان کیا گیا ہے وہ تو ایک بریک تھرو کا ہی بتا رہے ہیں۔

ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ نئے امریکی صدر کو پاکستان میں کاروبار کے منافع حاصل کرنے کے وہ سب مواقع دکھائی دے جائیں جو موجود ہیں۔ دھیان پڑنے کی دیر ہے تاریخ بدل سکتی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments