جوابی بیانیہ بحضور کاکڑ صاحب!


\"ijaz-ahmad\"عدنان خان کاکڑ صاحب ہمارے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ انتہائی شریف النفس اور ظریف الطبع انسان معلوم ہوتے ہیں۔ خوب لکھتے ہیں، کمال لکھتے ہیں۔ نسیم حجازی مرحوم کی طنزیہ مدح سرائی میں ان کی تحریر پڑھی تو ورطہ حیرت میں آگیا کہ کاکڑ صاحب نے تو وہ وہ انکشافات کرڈالے جن تک اس سےپہلے کسی کا ذہن نہیں گیا تھا۔ بہرحال یہ دیدہ دلیری کسی اور کے حصے میں کہاں آنی تھی۔ اس ضمن میں ان تاریخی واقعات کا بھی مذاکرہ (کذا) ہو جائے جو کاکڑ صاحب درج کرنا بھول گئے یا شاید انہوں نے دانستہ طور پر ان کا ذکر مناسب نہیں سمجھا۔۔۔

جنگ عظیم اول اور دوم کا تذکرہ نہیں کیا گیا جن میں مجموعی طور پر تقریباً اڑھائی کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے مگر اقوام عالم کے وسیع تر مفاد میں ایسا کرنا شاید ضروری تھا،کیونکہ اس کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہ تھا۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی کا ذکر کئے بغیر انسانی جنگی جنون کی تاریخ نامکمل تصور کی جائے گی کہ ان دو شہروں میں تو تقریبا دو لاکھ کم و بیش بے گناہ انسانوں کو بلا تفریق موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔

یہودیوں کی تاریخ قبل از اسلام سے شروع ہوتی ہے اس میں پھر بخت ںصر کا ذکر نہ کرنا یہودی بھائیوں کیساتھ نا انصافی ہوگی۔ ستر ہزار کا ہندسہ تو یہودی تاریخ میں ویسے بھی بڑا اہم ہے۔ یہ تاریخ بیسویں صدی میں نازی جرمنی اور ہٹلر کا ذکر کئے بغیر بھی ادھوری ہے جہاں تقریبا 60 ہزار (کذا) یہودیوں کا قتل (ہولوکاسٹ) عام کیا گیا تھا۔

صلیبی جنگوں کا حوالہ نہیں دیا گیا جن کی تاریخ تقریبا ایک ہزار سال (کذا) پر محیط ہے اور جس میں لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ نیپولین وار اور وار آف ٹرائے کے ذکر سے بھی صرف نظر کیا گیا۔ ہمارے دوست اور پڑوسی ملک چین میں موزے تنگ (کذا) کے لانگ مارچ اور نتیجتاً لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع شاید کوئی اتنا اہم واقعہ نہیں تھا جس کا ذکر کیا جاتا۔

تاریخ کے باب میں مزید پیچھے جائیں تو چنگیز خان، ہلاکو خان اور قبلائی خان کھڑے نظر آتے ہیں۔ جن کی درندگی کی مثالیں دی جاتی ہیں اور پھر بیسویں صدی میں امریکہ ویت نام جنگ، جس میں مجموعی طور پر تقریبا 1,353,000 انسان مرگئے، مگر کاکڑ صاحب نے ان کا ذکر کرنا گوارا نہیں کیا۔ وسیع تباہی کے ہتھیار) (weapon of mass destruction کا ڈرامہ رچا کر عراق پر حملہ جس میں تقریبا ۱۰ لاکھ انسان جان سے گئے، کاکڑ صاحب کی توجہ حاصل نہیں کرسکے۔

1984 میں سیکولرزم کے سب سے بڑے علمبردار بھارت کےمختلف شہروں میں مجموعی طور پر تقریبا 20 ہزار سکھ، جن کو صرف اس وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا، کہ ان کے ایک ہم مذہب سکھ باڈی گارڈ نے مبینہ طور پر اپنے مذہب کی توہین کرنے پر اندرا گاندھی صاحبہ کو قتل کیا تھا۔ مختلف مواقع پر عیسائیوں اور مسلمانوں کا قتل عام اس کے علاوہ ہے۔

یہ اور ان کے علاوہ ظلم و بربریت کی بے شمار ایسی داستانیں جن کا تفصیلی احاطہ شائد یہاں ممکن نہ ہو ۔مگر تاریخ انسانی سے یہ چند واقعات نمونے کے طور پر کافی ہیں۔ سوال بڑا سادہ سا ہے کہ کیا یہ سارےواقعات نسیم حجازی مرحوم کے ناولز سےمتاثر ہوکر رونما ہوئے، کیا ان کے پیچھے نسیم حجازی کی فکر کارفرما تھی، کیا وہ سارے لوگ جو بالواسطہ یا بلا واسطہ خاک اور خون کے اس کھیل میں ملوث تھے کیا انہوں نے   ’معظم علی‘ اور ’شاہین‘ کو پڑھا تھا، کیا دنیا میں نسیم حجازی وہ واحد ناول نگار ہیں جنہوں نے اپنے ناولز کے لئے اپنی تاریخ سے ایسے واقعات کا انتخاب کیا،اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نسیم حجازی مرحوم کے ساتھ ہی ایسا رویہ کیوں رکھا گیا؟

آخر میں کاکڑ صاحب کی خدمت میں بس اتنی سی گزارش ہے کہ

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔۔۔

(اعجاز احمد لارنس کالج گھوڑا گلی میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments