پاکستان سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر لوٹنے والے کشمیری نوجوانوں کی بحالی کی پالیسی کتنی مدد گار رہی؟


انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی حکومت نے 2010 میں شدت پسندوں کی بحالی سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تو بعض افراد تشدد کا راستہ ترک کر کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگئے۔ لیکن حکومت کی اس پالیسی کے بارے میں زمینی حقائق کیا ہیں اور کیا یہ مددگار ثابت ہوئی؟

نثار احمد کاوا 2012 میں اپنے خاندان کے ساتھ نیپال کے راستے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر واپس آئے تھے۔ وہ پاکستان میں 24 سال گزار کر آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے پاکستان میں اپنے گھر اور کشمیر کو کافی یاد کیا۔‘

سنہ 1990 کی دہائی میں نثار کے مطابق وہ اسلحے کی تربیت حاصل کرنے پاکستان چلے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت کشمیر کے نوجوانوں کے اندر آزادی کی جنگ میں شامل ہونے کا جذبہ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جس شورش کا وہ خود نشانہ بنے ہیں تو اب اس کی خاطر جنگ کا بھی حصہ بن جائیں۔

نثار احمد بتاتے ہیں جب انھوں نے پاکستان میں اپنے ساتھیوں اور کشمیر کے نوجوانوں کو تجارت کرتے ہوئے دیکھا اور وہیں بستے ہوئے دیکھا تو انھیں بہت تعجب ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیری جنگ کیوں چاہتے ہیں؟

مہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانی

کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟

آزادی کی لڑائی کا حصہ بننے سے متعلق اپنے فیصلے کی تبدیلی کے پیچھے وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ان سب نے شادی کرنا شروع کر دی تھی۔‘

’وہ پاکستان میں تجارت کر کے وہیں بسنے لگے تھے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میری آزادی کی جدوجہد سے متعلق کارروائیوں میں دلچسپی ختم ہوگئی۔ مجھے لگا کہ ہم اپنے اصل مقصد کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں کشمیر جا کر ایک نارمل (عام) زندگی گزاروں گا۔‘

نثار احمد نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر واپس لوٹنے سے قبل ایک پاکستانی خاتون سے شادی کی تھی۔

سینکڑوں کشمیریوں کی طرح نثار بھی تب انڈیا واپس لوٹے جب جموں و کشمیر کی حکومت نے 2010 میں بحالی سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس پالیسی کے تحت انھیں کوئی خاص مدد حاصل نہیں ہوئی ہے۔

نثار بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے حکومت کی بحالی کی پالیسی کے بارے میں سنا تو ہم نے (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر واپسی کا فیصلہ کیا اور پھر ہم یہاں آگئے۔

’یہاں پہنچنے کے بعد ہمیں بہت بُرے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں ایک حقارت بھری زندگی گزارنی پڑی۔ حکومت کی پالیسی ہمارے لیے ایک مذاق ثابت ہوئی۔ حکومت نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ میں ابھی بھی ایک کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ ہمارے خواب پورے نہیں ہوئے۔ میرا خاندان ان خوابوں کی قیمت ادا کررہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب ہم کشمیر پہنچے تو ہمارے خاندان والوں نے ہمیں قبول نہیں کیا۔ مجھے ایک کرائے کے گھر میں پناہ لینا پڑی۔‘

حال ہی میں لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ سنبھالنے والے منوج سنہا نے دوبارہ سے بحالی کی پالیسی کے نفاذ کا اشارہ دیا تھا۔

انہوں نے کشمیر میں ‘راہ بھٹکنے والے نوجوانوں’ سے تشدد کا راستہ ترک کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ان کو مدد فراہم کرے گی۔

نثار نے ان کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری حالت دیکھیں۔ آٹھ سال قبل (انڈیا کی) حکومت نے پاکستان جا کر اسلحے کی تربیت لینے والے نوجوانوں سے ایسی ہی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ حکومت ان کی مدد کرے گی۔

’سینکڑوں نوجوان کشمیر واپس آئے بھی، لیکن کہاں گئی بحالی؟ وہ صرف اعلانات کرتے ہیں، زمینی سطح پر کچھ نہیں ہو رہا۔‘

اتوار کو انڈین فوج کے ایک افسر بے ایس راجو نے کہا کہ ’بحالی کی پالیسی ان شدت پسندوں کے لیے ہے جو مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ شدت پسندوں کو ہلاک کر کے ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی۔ جب شدت پسند ہمارے ہاتھ آجاتے ہیں تو ہم ان کو سرنڈر کرنے کا موقع دیتے ہیں۔‘

کشمیر میں 2010 کی بحالی سے متعلق پالیسی

نومبر سنہ 2010 میں جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 90 کی دہائی میں تربیت کے لیے پاکستان جانے والے کشمیری نوجوانوں کی بحالی سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

حکومت نے کہا تھا کہ جو سرنڈر کریں گے انھیں ‘انڈیا کی یکجہتی‘ اور آئین پر یقین ہونا چاہیے۔

یہ پالیسی یکم جنوری 1989 سے 31 دسمبر 2009 کے درمیان پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر جانے والے نوجوانوں اور ان پر انحصار کرنے والے ان کے خاندانوں پر نافذ ہوتی ہے۔

یہ پالیسی 2004 میں تشکیل دی جانے والی پالیسی سے مختلف تھی۔

سنہ 2004 میں جو پالیسی بنائی گئی تھی وہ صرف ان مقامی شدت پسندوں کو دھیان میں رکھ کر تشکیل دی گئی جو پاکستان نہیں گئے تھے۔

جبکہ 2010 کی پالیسی میں اسلحے کا استعمال ترک کر کے ایک عام شخص کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھنے والے ان شدت پسندوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جو پاکستان سے واپس آنا چاہتے ہیں۔ اس پالیسی میں ان کی بحالی اور مالی امداد کی بات کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

عمر عبداللہ رہا، جیل سے گھریلو قرنطینہ میں

فاروق عبداللہ کی رہائی: ’سب کی رہائی کے بعد کچھ کہوں گا‘

کشمیری رہنما محبوبہ مفتی 14 ماہ کی نظربندی کے بعد رہا

اس پالیسی کے تحت یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ جو شدت پسند سرنڈر کریں گے ان کے خلاف اگر کوئی سنجیدہ قسم کا مقدمہ درج ہوا تو تبھی اس کی عدالت میں شنوائی کی جائے گا۔

پالیسی کے تحت شدت پسندوں کو سرنڈر کرنے کے چار روٹ یا راستے طے کیے گئے تھے۔ واپس لوٹنے والے یہ چار راستے تھے: چکاں دا باغ، پونچھ اور بارہمولہ ضلعے، دلی کا اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور پنجاب میں واہگہ و اٹاری بارڈر۔

حالانکہ بیشتر شدت پسند نیپال کے راستے واپس آئے جن میں ایک نثار احمد بھی شامل تھے۔ یہ پالیسی کے ضوابط کی خلاف ورزی تھی۔

نثار کا دعوی ہے کہ ’ان کے لیے کشمیر واپس جانے کے جو روٹ طے کیے تھے پاکستانی حکام نے اس کا استعمال کرنے نہیں دیا۔ اس لیے ہمیں نیپال کے راستے آنا پڑا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کی سرحد پر دونوں جانب سے جاری رہنے والی گولہ باری کی وجہ سے انھوں نے یہ راستہ اختیار کیا۔

بعد میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ’نیپال کے راستے کشمیر واپس لوٹنے والے نوجوانوں‘ کو ریلیف دینے کی کوشش کی تھی۔

جموں و کشمیر حقوق تنظیم کے صدر احسان کشمیری کے مطابق اب تک 350 ہزار خاندان کشمیر واپس لوٹ چکے ہیں۔ حقوق تنظیم پاکستان سے واپس لوٹنے والوں کے خاندانوں پر مشتمل ایک تنظیم ہے۔ احسان خود 2010 کی شدت پسندوں کی بحالی سے متعلق پالیسی کے تحت کشمیر واپس آئے۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 23 سال گزارے ہیں اور میں پیپلز لیگ کا حصہ تھا۔ میں نے وہاں شادی کی اور جب 2011 میں بحالی کی پالیسی کا اعلان کیا گیا تو میں اپنے کنبے کے ساتھ واپس آگیا تب سے ہماری بحالی کے بارے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس واپس آنے والوں پر متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم جیل میں ہیں۔‘

’جب ہم ہی تاحال آباد نہیں ہوئے تو پھر آپ انتہا پسندوں کے نئے دستوں کی بحالی کیسے کریں گے؟ حکومت ان کو لالچ دے رہی ہے بالکل اسی طرح جیسا کہ انھوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔

’ہمارا خاندان کشمیر سے باہر نہیں جاسکتا۔ میری اہلیہ کے بہت سے قریبی دوست اور رشتہ داروں کا پاکستان میں انتقال ہوگیا لیکن ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ ہم نے اس سلسلے میں متعدد اہلکاروں سے ملاقات کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘

اختلافات

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اعلان پر جموں و کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سخت مخالفت کی تھی۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ریاستی صدر روندر سنگھ رینا نے کہا کہ ’شدت پسند، شدت پسند ہے۔ شدت پسندوں کے لیے ایک ہی پالیسی ہے، وہ ہے گولی۔‘

فون پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’دہشت گرد، دہشت گرد ہیں۔ پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی نے پچھلے 30 سالوں میں جموں و کشمیر میں خون بہایا ہے۔ وہ اسلحے کی تربیت کے لیے پاکستان جاتے ہیں اور وہاں سے اسلحہ و گولہ بارود لے کر واپس لوٹتے ہیں۔

کشمیری، پاکستان، انڈیا، واپسی

’پھر سکیورٹی فورسز اور بے گناہ عوام کو ہلاک کرتا ہے۔ انھیں کبھی کوئی کام نہیں دیا جاسکتا۔ دہشت گردی کا بے روزگاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کا ایجنڈا جموں و کشمیر میں خون بہانا ہے۔ یہ خیال کہ ملازمتیں دینے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا، یہ ناممکن ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’ملازمت ان نوجوانوں کو دی جانی چاہیے جو تعلیم یافتہ ہیں اور امن میں یقین رکھتے ہیں۔‘

جموں و کشمیر میں بائیں بازوں کی جماعت سی پی ایم کے ریاستی صدر اور سابق ممبر پارلیمان یوسف تاریگامی کہتے ہیں کہ پاکستان سے واپس آنے والے شدت پسندوں سے متعلق جو پالیسی تھی اس کا نفاذ نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’2010 کی پالیسی نافذ نہیں کی گئی۔ اس پالیسی کے تحت لوٹ کر آنے والے سابق شدت پسندوں کی بیویاں کہیں کی نہیں رہیں۔ ان شدت پسندوں نے وہاں شادیاں کی تھیں اور اپنے خاندان کو اس پالیسی کے تحت واپس لے آئے۔ لیکن آج کی تاریخ میں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون ہیں؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس پہلے سے ایک پالیسی موجود ہے وہ سرکاری پالیسی ہے۔ موجودہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے حال ہی میں مقامی شدت پسندوں سے اسلحے کو ترک کرنے کی اپیل کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ انھیں ملازمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر امداد فراہم کی جائے گی۔

’وہ جو کہتے ہیں اسے پالیسی کا حصہ بنائیں۔ عوام حکومت کے اعلانات پر یقین نہیں کرتے ہیں۔ بیان تو دے دیے جاتے ہیں لیکن ان کا نفاذ نہیں کیا جاتا ہے۔‘

عمر عبداللہ کی حکومت میں وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز رہنے والے ناصر اسلم وانی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی حکومت بحالی سے متعلق پالیسی کا صحیح سے نفاذ نہیں کرسکی۔

ان کا کہنا ہے ’2010 میں ہم نے پاکستان سے واپس آنے والے کشمیری نوجوانوں کی بحالی سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس پالیسی کو بے حد حمایت حاصل ہوئی اور سینکڑوں خاندان واپس کشمیر لوٹ آئے۔

’ان میں سے بیشتر نے وہیں شادیاں کی تھیں اور سب اپنے خاندانوں کے ساتھ واپس لوٹے تھے۔ اس درمیان ہم اقتدار سے بے دخل ہوگئے۔ 2014 میں دلی میں اقتدار بدلا۔ نئی حکومت نے اس پالیسی کی حمایت نہیں کی اور پی ڈی پی نے اس مسئلے پر دھیان نہیں دیا ہے۔‘

حالانکہ پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اس پالیسی کا نفاذ نہیں کرنے دیا۔

کشمیری، پاکستان، انڈیا، واپسی

پی ڈی پی کی یوتھ ونگ کے صدر وحید پارا کہتے ہیں ’ہم جس نارمل یا معمول کی زندگی کی شروعات کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ہم نے ایک ایسی نئی پالیسی کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت واپسی آنے والوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی بحالی ہو۔ اس سے متعلق ہم نے مرکزی حکومت کو بھی ایک ڈرافٹ بھیجا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اسے منظوری نہیں دی اور یہ ڈرافٹ دلی میں حکومت کے پاس پڑا ہے۔‘

پالیسی کا نفاذ سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے

جموں و کشمیر میں سیکورٹی کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے لیے بحالی کی پالیسی متعارف کرانا ایک مثبت قدم تھا لیکن اس کا نفاذ صحیح طریقے سے ہونا چاہیے تھا۔

جموں و کشمیر کے سابق ڈی جی پی شیشپال ودھیے بحالی کی پالیسی کو ایک خوش آئند قدم قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس قدم کا استقبال ہونا چاہے اور یہ پالیسی نافذ کی جانی چاہیے۔ آخر کار جو نوجوان غلط راہ پر چلے گئے وہ بھی ہمارے بچے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پالیسی کی شکل کیا ہوگی۔ پالیسی کے تحت کن لوگوں کو مدد فراہم کی جائے گی اور اس کا نفاذ کیسے کیا جائے گا۔

’صرف وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر اس پالیسی کا صحیح طریقے سے نفاذ کیا گیا تو اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔‘

شیشپال ودھیے 2016 سے 2018 کے درمیان جموں و کشمیر کے ڈی جی پی تھے۔

سری نگر کے رہائشی ڈاکٹر رضا مظفر کا خیال ہے کہ سابق حکومتیں بحالی سے متعلق پالیسی کا نفاذ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر کوئی بھی پالیسی کسی بھی حکومت کے ذریعے تشکیل دی گئی ہے تو اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر عمر عبداللہ نے کوئی پالیسی بنائی تو پی ڈی پی کو اس کو آگے کلے جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا شاید ہوتا ہی نہیں ہے۔ جو لوگ ان پالیسیوں اور حکومتوں کے وعدوں پر یقین کرتے ہیں، مصیبت ان کی ہوتی ہے۔’

کشمیر میں شدت پسندی کا موجودہ دور

جموں و کشمیر کی پولیس نے حال ہی میں بتایا ہے کہ کشمیر میں سال 2020 میں ابھی تک 180 شدت پسندی کو 75 کارروائیوں میں ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ ان کارروائیوں میں 55 سیکورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ پوچھا گیا کہ کتنے شدت پسندوں کو اس سال مرکزی دھارے میں لایا گیا ہے، اس کے جواب میں ڈی جے پی دل باغ سنگھ نے بتایا کہ 2020 میں 26 نوجوانوں کو کڑی محنت کی بدولت ان کے خاندان والوں سے ملاقات کرائی گئی۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے دل باغ سنگھ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابھی یونین ٹریٹری میں کوئی اس طرح کی پالیسی نہیں ہے۔

جنوبی کشمیر کے ڈی آئی جی اتل گوئیل نے 29 اگست 2020 کو بتایا تھا کہ جنوبی کشمیر میں اس سال 80 مقامی نوجوانوں نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہے جن میں بعض ہلاک کردیے گئے، بعض کو گرفتار کر لیا گیا اور بعض نے سرنڈر کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp