دیکھتے ہیں کیا ہو تا ہے؟


لگتا ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اگر یہ صورت حال بر قرار رہتی ہے تو کیا ہمارا سماجی ڈھانچہ تڑخ نہیں جائے گا؟ ادھر معیشت کی ناؤ بھی ہچکولے کھا رہی ہے جس سے غربت افلاس اور بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لوگ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں مگر چند طبقات دولت کے ڈھیر لگا کر زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرتے ہوہئے نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت اور سویلین ادارے جن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات کو عوام موافق بنانے کے لئے غور و فکر کریں وہ کیا سوچ رہے ہیں اور کیوں صورت حال کا جائزہ نہیں لے رہے اس کا انہیں جواب دینا چاہیے۔

اگرچہ اس وقت حکومت مخالف سیاسی اتحاد نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے جس سے انتظامی اداروں اور حکومت کی توجہ تقسیم ہے اور وہ اپنے فرائض پوری طرح ادا نہیں کر پارہے مگر یہ تو ایک دو ہفتوں کی بات ہے اس سے پہلے وہ اسی طرح تھے عوام دہائی دے رہے تھے کہ انہیں گمبھیر مسائل کا سامنا ہے اہل اختیار اس جانب اپنی توجہ مبذول کریں مگر کسی نے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا لہذا آج جو منظر ہمارے سامنے ہے وہ بڑا تکلیف دہ ہے۔

جس کسی کا جو دل چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے اس سے مجموعی طور سے لوگوں کا مزاج تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ انتظامی ادارے اور حکومت ان کو دانستہ نظر انداز کر رہے ہیں انہیں ان کے مسائل و پریشانیوں سے کوئی غرض نہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارا معاشرہ ذہنی انتشار کی طرف بڑھ رہا پے مگر جو اقتدار میں ہیں انہیں شاید یہ مغالطہ ہے کہ یہ سب ایسے ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہونے والا کوئی بگاڑ اور رجحان جب پیدا ہوتا ہے تو اسے درست کرنا پڑتا ہے روکنا پڑتا ہے لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ حالت موجود کو قابو میں کر لیا جائے بصورت دیگر اس کے بگڑنے کامزید اندیشہ ہے؟

بہرحال غیر یقینی کی فضا واضح طور سے دیکھی جا سکتی ہے کہ جس میں لوگوں میں مایوسی صاف نظر آ رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں اس سے جلداز جلد نجات دلائے اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کو عوامی خدمت کے لئے فعال کر دے قانون پر عمل درآمد کروانے کے لئے آنکھیں ماتھے پر رکھ لے۔

اگر وہ اب بھی نرمی برتتی ہے یا وہ یہ سمجھتی ہے کہ صورت حال خراب کرنے والے عناصر کو ڈھیل دے کر مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں تو وہ سخت غلطی کر رہی ہے کیونکہ جب معاملات بگڑ جائیں اور ذہن کسی کلیے قاعدے کو ماننے کی عادت ترک کر دیں تو ان کو قانون کا راستہ دکھانا لازمی ہو جاتا ہے تاکہ وہ اپنی سوچ کا زاویہ تبدیل کر لیں لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت مصلحت کوشی چھوڑتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اسے فقط ٹیکس ہی نہیں لگانا عوام کی فلاح وبہبود کا بھی سوچنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ وہ جو ٹیکسوں کا بوجھ ان پر لاد رہی ہے وہ اس برداشت بھی کر رہے ہیں مگر نہیں وہ یہ نہیں دیکھ رہی یہی حکومت نہیں کوئی بھی ایسا نہیں سوچتی اور آنکھیں بند کر کے احکامات جاری کرتی جاتی ہے چلئے وہ ایسا کرتی بھی ہے تو کیا اس سے خوشحالی آ گئی ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ نکلیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس وقت بھی ویسی ہی صورت حال ہے لوگ حیران وپریشان ہیں اور وہ کہتے پیں کہ ان کا کیا بنے گا؟

یہ کہنے میں وہ حق بجانب ہیں کیونکہ آج تک ان کا نعروں وعدوں اور دعوؤں سے دل بہلایا گیا ہے عملاً کچھ نہیں ہوا ان کا استحصال مسلسل ہوتا آیا ہے انصاف کو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرنے دیا گیا طاقتوروں نے انہیں ہمیشہ دبانے کی کوشش کی انہیں جمہوریت کے نام پر بیوقوف بنایا گیاجبکہ اب تک ایک بھی جمہوریت پسند حکمران نہیں آیا جو بھی آیا اس نے اپنی مرضی کی اس کی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ابھی ہمارے ہاں حکمران طبقے کو نہ ہی عوام کو جمہوریت کے حوالے سے کچھ پڑھایا لکھایا گیا ہے غالب اکثریت لفظ جمہوریت کو جانتی ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ اس کے معنی ومفہوم کیا ہیں سیاسی جماعتیں عوام کو یہی بتاتی چلی آئی ہیں کہ جو حکومت ان کے ووٹوں سے بنتی ہے وہ جمہوری ہوتی ہے مگر جمہور کوجو حقوق انہیں دینا ہوتے ہیں اس بارے نہیں بتاتیں۔

اب بھی جب حزب اختلاف حکومت کو نہیں مان رہی اور جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہے یہ نہیں کہہ رہی کہ اگر اس کی حکومت آتی ہے تو وہ ان کی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہر فیصلہ کرے گی اور انہیں شریک اقتدار بھی کرے گی بس وہ حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے اور خود اقتدار میں آنے کی خواہشمند ہے جبکہ اسے حکومت کے ساتھ مل کر عوام جو ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی لکیر کے نیچے سے نیچے آتے جا رہے ہیں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر انے لگا ہے کو حوصلہ دینے اور مسائل کے کاحل تلاش کرنا چاہیے خیرحکومت کا کہنا ہے ہے کہ اب وہ عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹے گی تا کہ لوگوں کو مایوسی کے بھنور سے باہر نکالا جا سکے ’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).