پاکستان، کشمیر اور بھارت: امن کی بھیک نہیں مانگی جاتی


مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور کشمیری عوام کے خلاف انڈین سیکورٹی فورسز کے مظالم کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے اور برصغیر میں قیام امن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کشمیر کے یوم سیاہ کے موقع پر ایک پیغام میں عمران خان نے یہ مؤقف دہرایا ہے امن کے راستے پر بھارت اگر ایک قدم آگے بڑھے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم کے نزدیک نہ جانے اس جملے کی محاورے سے زیادہ کیا اہمیت ہے لیکن انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ امن خیرات نہیں ہے کہ کسی سے از رہ ترحم مانگ لیا جائے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے خود کو مستحکم اور طاقت ور پوزیشن میں لانا ضروری ہوتا ہے۔ فی زمانہ معاشی ، سفارتی اور سیاسی معاملات کے آداب کو دیکھتے ہوئے یہ جاننا مشکل نہیں کہ طاقت کا مطلب کسی ملک کی فوج کا طاقت ور اور جدید اسلحہ سے لیس ہونا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کسی ملک کے فوجی اور عوام جنگ کے لئے کتنے تیار و مستعد ہیں۔ بلکہ اس وقت کسی قوم کے طاقت ور ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کے لوگ کس حد تک مطمئن و خوش حال ہیں۔ معاشرے میں اعتبار اور باہمی احترام کی کیا کیفیت ہے اور عمومی سیاسی معاملات کیسے طے کئے جارہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ان پہلوؤں پر غور کیا جائے تو اس کی بارگیننگ پوزیشن نہایت کمزور دکھائی دے گی۔

بھارت جیسے دشمن ملک سے امن کی بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہونی چاہئے۔ ملک میں سکون و اطمینان کی فضا ہو۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر، عوام کا حکومت پر اور حکومت کا حزب اختلاف کی سیاسی طاقتوں پر بھروسہ ہو۔ ایسی فضا موجود ہو کہ اختلاف کا اظہار صحت مند سماجی رویہ سمجھا جائے اور ریاستی ادارے اپنی حدود کو پہچانتے ہوں۔ ایسی صورت حال موجود نہ ہو کہ ملکی ادارے جن میں افواج پاکستان سرفہرست ہیں، اپنے ہی لوگوں کے لئے صعوبتوں کا سبب سمجھے جائیں، عوام اور اداروں کے رشتے میں دراڑ پڑ رہی ہو اور ملک کی سیاسی حکومت اس دراڑ کو وسیع کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتی ہو۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی سماج اس وقت سیاسی، معاشی اور اعتبار کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جن عناصر کو اس بحران سے نمٹنے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے ، وہی اس انتشار و بے چینی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات میں بھارت جیسا بڑا ملک کیوں کر پاکستانی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر امن کھوجنے کی کوشش کرے گا؟

دشمن ہمسایہ ملک کے ساتھ امن کی خواہش سے پہلے اس بات کا ثبوت بھی فراہم ہونا چاہئے کہ امن مذاکرات کی خواہش کرنے والا لیڈر تضاد ختم کرنے اور اختلاف میں سے راستہ نکالنے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے۔ عمران خان مفاہمت کی بجائے تصادم کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو سال پہلے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے پاس وسیع تر سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کا نادر موقع تھا۔ برسر اقتدار آنے والی حکومت سے عوام نے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں، نئی قیادت کو فوجی لیڈروں کی غیر مشروط تائید و اعانت حاصل تھی اور ملک کی سیاسی اپوزیشن اسمبلیوں میں قابل ذکر نمائیندگی کے باوجود نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے پر مجبور تھی۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کی صورت حال کو خواہ عمران خان کی زبان میں ایک پیج کی حکمت عملی کہا جائے جو بقول ان کے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یا اپوزیشن کے مؤقف کی روشنی میں یہ مان لیا جائے کہ اسٹبلشمنٹ نے اپنی مرضی کی حکومت ملک پر مسلط کی تھی۔ دونوں صورتوں میں یہ واضح ہے کہ عمران خان کے زیر قیادت قائم ہونے والی حکومت کو عسکری لیڈروں کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ ملک کے حالات تبدیل کرنے کے لئے یہ نادر موقع تھا۔

عمران خان اپنی نخوت، تنک مزاجی اور انتقامی رویہ کی وجہ سے یہ نادر روزگار موقع ضائع کرچکے ہیں۔ اب وہ تقریروں میں سوال کرتے ہیں کہ ’ابھی 26 مہینے ہوئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں عمران صاحب کدھر گیا نیا پاکستان۔ میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ نیا پاکستان کوئی سوئچ نہیں ہے، حکومت آئی، سوئچ آن ہوا اور نیا پاکستان بن گیا۔ پریوں کی کہانی میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن اصل زندگی میں اصلاحات ایک جدوجہد کا نام ہے۔ ایک قوم جدوجہد کرتی ہے، تبدیلی کے لیے پوری قوم مل کر جدوجہد کرتی ہے تب تبدیلی آتی ہے‘۔ اعتراف شکست کا اس سے بہتر نمونہ تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ محترم وزیر اعظم چھبیس ماہ تک برسر اقتدار رہنے کے باوجود اب تک یہ نہیں سمجھ پارہے کہ وزیر اعظم کا کام ’سمجھانا‘ نہیں بلکہ سمجھنا ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت دوسروں کو ’لیکچر‘ نہیں دیتا بلکہ بیشتر وقت سننے اور غور کرنے میں صرف کرتا ہے۔ کوئی سیاسی تبدیلی ایک بٹن دبانے سے رونما نہیں ہوسکتی لیکن اس بات پر لوگ اسی وقت اعتبار کریں گے اگر وہ یہ جان سکیں کہ جس تبدیلی کی بات کی جارہی ہے ، کسی سطح پر اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس کی بجائے اگر دشنام طرازی، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آئے اور حالات میں استحکام کی بجائے انتشار کی کیفیت ہو تو کوئی کیسے کسی ایسے وزیر اعظم کا اعتبار کرے گا جو اپنے سرپرستوں و حلیفوں کے لئے بھی بوجھ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی کو پاکستان اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کے حوالے سے ’خوش آئند‘ قرار دیا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ بھارت میں اگر ایک انتہا پسندانہ سیاسی نقطہ نظر رکھنے والی پارٹی برسر اقتدار آجائے گی تو پاکستان سے مفاہمت کرنے اور کشمیر پر کسی معاہدہ پر پہنچنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ انتہاپسند عناصر کی تائید کی وجہ سے اس کی پوزیشن مضبوط ہوگی جو وہ خطے میں امن کے لئے استعمال کرے گی۔ پاکستانی وزیر اعظم کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوچکا ہے لیکن وہ اس کی وجوہ پر غور کرنے اور اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی بجائے، اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تند و تیز بیانات، عالمی اداروں میں سخت مؤقف اور یوم سیاہ پر پر جوش تقریروں سے بھارتی قیادت کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ وہ اب نریندر مودی کو ہندو انتہاپسند اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہندو توا کے ایجنڈے پر گامزن قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی کامیابی سے کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی امید لگاتے ہوئے ، وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے تھے کہ کوئی بھی پاپولسٹ اور مذہبی انتہا پسند لیڈر کسی ایسے علاقے پر پاکستان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا جہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو۔ ایسا کرنے سے وہ اس بنیادی ووٹر سے محروم ہوسکتا ہے جس نے مسلم اور پاکستان دشمنی کی وجہ سے انہیں ووٹ دیے تھے۔

نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرکے عملی طور سے اس خطے کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہے۔ شہریت کے قوانین میں تبدیلی سے اب ہندوؤں کو کشمیر میں آباد ہونے اور وہاں املاک خریدنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ خطے کی مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے لئے وہاں کے آبائی باشندوں کی اپنے ہی علاقے پر دسترس کے اصول پر یہ ایک سنگین اور شدید حملہ ہے۔ پاکستانی قیادت، اس بھارتی جارحیت کا مناسب جواب دینے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کی صورت حال کو بنیاد بنا کر دھواں دار بیانات پاکستان میں عوام کی جذباتی تسکین کا باعث تو ہوسکتے ہیں لیکن کشمیری عوام کو اس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہوگا۔

دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی درجنوں تنظیمیں سال ہا سال سے کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی درندگی اور شہریوں کے حقوق پر دستاویزی شواہد کے ساتھ آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ انہی کوششوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر جامع رپورٹ شائع کی تھی۔ امریکی اور یورپی اخبارات بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بات کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کوئی عالمی ادارہ یا میڈیا خطے کی سیاسی صورت حال پر پاکستانی مؤقف کی حمایت نہیں کرتا۔

پاکستانی حکومت بظاہر یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں شور مچانے سے پاکستان کشمیری عوام کو حق خود اختیاری نہیں دلوا سکتا۔ اس کے لئے اسے سیاسی مہارت اور سفارتی چابکدستی کی ضرورت ہے۔ جو مسئلہ گزشتہ 72برس سے التوا کا شکار ہو ، اس کے بارے میں یہ تسلیم کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ اسے حل کروانے کے پرانے طریقے ناکام ہوچکے ہیں۔ زیب داستاں اور زور بیان کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن اس معاملہ پر پیش رفت کے لئے پاکستان کو کوئی ایسا آپشن تلاش کرنا ہوگا جس پر فریقین مل بیٹھ سکیں اور مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش ہوسکے۔

عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ وہ جس طرح اپوزیشن کو دبانے کے لئے زور آوری دکھا رہے ہیں، اسی لب و لہجہ سے وہ بھارت یا عالمی رائے کو مغلوب کرسکیں گے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں دیکھنا، سمجھنا اور ادارک کرنا چاہئے کہ دھمکیوں اور الزام تراشیوں سے تو وہ ملکی سیاسی لیڈروں کو بھی مرعوب نہیں کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali