بائیس کروڑ بھیڑیں اور گڈریا


پاکستان کی سات دہائیوں کی سیاسی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کے اقتدار اور ناتواں جمہوری حکومتوں کے مابین آنکھ مچولی نے پاکستان کی عوام کے سیاسی مزاج کو بھی پختہ نہیں ہونے دیا۔ ہم نے دیکھا کہ نوے کی دہائی میں عوام نے جس وزیراعظم کو دو تہائی اکثریت سے نجات دہندہ کے طور پر منتخب کیا اسی وزیراعظم کے معزول ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس کے بعد جس فوجی آمر کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا گیا اسی کے مستعفی ہونے کے لیے سول سوسائٹی اور وکلا نے ایک بھرپور اور بے مثال تحریک چلائی۔

کیا اس متضاد سیاسی رویے پر عوام کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے اس عمومی سیاسی رویے کو سمجھنے کے لیے بہت سے دیگر معاملات جس میں خاص طور پر معیشت شامل ہے کو دیکھنا پڑے گا۔ بھوک کے ہاتھوں پریشان یہ بائیس کروڑ بھیڑیں بنیادی طور پر سبز چراگاہوں اور میٹھے پانی کی تلاش میں در بدر سرگرداں ہیں۔ گڈریے کے روپ میں جس نے جس طرف ریوڑ کو ہانک دیا اس طرف چل پڑے کہ شاید پیٹ بھرنے کو سبز چارہ مل جائے۔ المیہ یہ کہ اس بدنصیب ریوڑ کا ہر بار گڈریا تو تبدیل ہوتا رہا مگر قسمت تبدیل نا ہو سکی۔

برٹش ایمپائر کے زوال سے دنیا میں جو نئے ممالک وجود میں آئے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے۔ اور کم وبیش پاکستان کا حال بھی اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک سے مختلف نہیں ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سب ممالک کے ایک ہی جیسے حالات ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ کہ ان ممالک میں عوام کو بہتر معیار زندگی حاصل نہیں ہوسکا۔ کمزور معیشتیں، زوال پذیر سرکاری ادارے، فکری انحطاط، قومی اجتماعی سوچ کا فقدان، بجائے قوم بننے کے رنگ، نسل، زبان، مذہب اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم شدہ معاشرہ، اوسط درجے کی سیاسی قیادت یعنی کم وبیش سب کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں۔

پاکستان ہی کی مثال لے لیں جہاں پر سیاسی جماعتیں اور سیاسی اشرافیہ جمہوریت کی گردان میں مصروف رہتی ہے مگر ان سیاسی جمہوری جماعتوں میں بنیادی طور پر آمریت رائج ہے۔ شخصیات کے گرد گھومتی سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات کا پرچار ان جماعتوں کے کارکنوں پر لازم ہے۔ اپنی جماعت کے سربراہ سے اختلاف رائے کو پارٹی سے غداری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ بھی تو ایک المیہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کو کسی طور پر بھی مخلص طرز حکمرانی نصیب نہیں ہو سکی۔ فوجی آمر آئے اپنے دور اقتدار میں جمہوری طرز اپنانے کی کوشش کی اور اگر جمہوری حکمران آئے تو انہوں نے فوجی آمروں کی طرح طاقت کے ارتکاز کی کوشش کی۔ اور فوجی آمر کے ہر اس طرز عمل اور ہتھکنڈے کو اپنانے کی کوشش کی جس کی بطور اپوزیشن وہ بھرپور مخالفت کرتی رہی اور اس کو عوام دشمنی سے تعبیر کرتی رہی۔ جمہوری ادوار میں شخصی حکومتیں قائم رہیں۔ جمہوری طرز حکومت میں شاہانہ طور اطوار اپنائے گئے جسے چاہا نواز دیا جسے چاہا دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں سیاسی میوزیکل چیئر کے اس واہیات کھیل میں واحد حصول شخصی طور پر طاقت کا حصول رہا اور عوام کی فلاح و بہبود کے بنیادی اصول کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ بطور قوم ہمارا قومی بیانیہ کیا ہے۔ اس سوال کے کئی جواب آپ کے دماغ میں آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ کہ بطور قوم ہمارا قومی بیانیہ تشکیل ہی نہیں ہوسکا۔ کبھی ہم لادین سرخ قوت کو گرم پانیوں سے دور رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے تو کبھی دہشت گردی کے خلاف کسی اور کی مسلط کردہ جنگ میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ ہراول لشکری کا کردار ادا کرتے رہے۔ اور اگر کبھی رونا بھی رویا تو اس بات کا کہ ہم اتحادی ہیں ہمیں مال غنیمت میں سے اپنا مقرر کردہ حصہ نہیں مل رہا۔ ظلم تو یہ ہوا کہ کچھ مدت بعد جب خطے کا معروض تبدیل ہوا تو ابدی دشمن کو ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں گرم پانیوں تک رسائی کی باقاعدہ دعوت دی گئی۔

تھوڑی دیر کو سوچیں کہ گزشتہ سات دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ہم نے اب تک کیا حاصل کیا۔ ان سات دہائیوں میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ مشرقی اور مغربی سرحدیں باڑ لگانے کے باوجود غیر محفوظ ہیں۔ معاشی طور پر آج بھی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قرضوں میں دبی معیشت اب آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ معاشی ابتری نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ آج بھی کروڑوں لوگ پینے کے صاف پانی، دو وقت کے کھانے اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کی فرسٹریشن کا شکار ایک فوج موجود ہے جس کی الجھنیں آئے روز بڑھ رہی ہیں۔ بجائے قوم بننے کے رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پر روز بروز تقسیم کا عمل جاری ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم جمع نہیں ہو رہے ہم تقسیم ہو رہے ہیں۔ اور کس قدر تقسیم ہوں گے بالآخر تقسیم ہوتے ہوتے جواب صفر آنا ہے۔

ریوڑ اپنے گڈریے سے جدا ہو جائے تو بھٹک جاتا ہے۔ اس کو یا تو منزل نہیں ملتی یا پھر جنگل کے بھیڑیے ایک ایک کر کے کھا جاتے ہیں۔ بے سمت اور رہنما کے بغیر ریوڑ کو سمت دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ کو ٹھیک ہونا ہوگا۔ مل بیٹھ کر ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ قومی زندگی گزارنے کے لیے جو دستاویز مرتب کی گئی ہے اس دستاویز کو گڈریا تسلیم کر کے اس کی اہمیت اور تقدس کو تسلیم کرنا پڑے گا اس گڈریے کی دی گئی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی۔

ہمیں بالآخر اس گڈریے پر اعتماد کرنا ہی پڑے گا کیونکہ جب ریوڑ میں کوئی بھیڑ زخمی ہوتی ہے اور چلنے کے قابل نہیں رہتی تو یہ گڈریا ہی ہوتا ہے جو اس بھیڑ کو کندھے پر اٹھا کر ریوڑ کے ساتھ چلتا ہے اور منزل مقصود پر پہنچ کر اس کا علاج کرتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ ریوڑ کی کوئی بھیڑ زخمی ہوئی ہو تو گڈریا اس کو زخمی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ جائے۔ اور جو ایسا کرتا ہے تو جان لیں کہ وہ گڈریا نہیں ہے۔ طے کر لیں کہ گڈریا جدھر کو ہانک دے اس طرف چل پڑنا ہے کیونکہ گڈریے کی نشاندہی پر آنے والی چراگاہ سے سب بھیڑوں کو یکساں طور پر سبز گھاس اور پانی یکساں طور پر میسر ہوگا۔ سب یکساں طور پر محفوظ ہوں گے۔ سب کو ایک جیسا موسم اور ایک جیسے ہی حالات میسر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).