آدمی انسان نہ رہا۔


اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا منصب عطا کیا ہے۔ اسے بہت سارے اوصاف اور کمالات سے مزین کیا ہے۔ اس میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی موجود ہیں۔ ایک طرف اس میں وہ گن رکھے کہ یہ دوسروں کے کام آتا ہے، نیکی کرتا ہے، خلائق کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے پر فدا اور قربان ہونے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہیں دوسری طرف یہی انسان اولیا الشیطان بن جاتا ہے۔

برائیوں میں لت پت، تفصیل اعمال اتنے برے کہ شیطان شرم کے مارے زمین میں گڑھ جائے۔ حق گو اور صداقت شعار تو پہلے تھا اب یہ اپنے فائدے کے لیے جھوٹ اور مکر و فریب سے کام لیتا ہے۔ پہلے انسان بے لوث، پر خلوص اور طاہر تھا اب آدمی ابن الغرض، مطلب پرست، حریص اور لالچی ہو گیا ہے۔ اسے جہاں اپنا فائدہ نظر آتا ہے وہاں یہ دوڑ کے جاتا ہے اور جہاں اسے اپنا ذاتی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہاں جانے کے لیے یہ ہرگز تیار نہیں ہوتا۔

اب یہ اپنا فائدہ دیکھ کر کلام کرتا ہے اور اپنے یافت کے خاطر تملق سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اب تو یہ دوستی اور رشتے بھی وہاں گانٹھ لیتا ہے جہاں اس کی مطلب پرست طبیعت کو قرار آئے۔ اتنا مکار، عیار اور فریبی ہو گیا ہے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کیا یہ واقعی انسان ہی رہا یا اپنا جون بدل کر کوئی اور مخلوق ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان سے ہی معاشرہ وجود پاتا ہے اور یہ بھی صداقت ہے کہ جیسا انسان ہوگا ویسا ہی معاشرہ ہوگا۔

ہمارے معاشرے میں صرف ایک دو آدمیوں کی سوچ نجس نہیں ہوئی بلکہ پورے معاشرے کو عیاری، جھانسے بازی اور چکمے بازی کی عادات پڑ گئیں ہیں اور قرب و جوار میں دغا بازوں، فریب کاروں اور چھلاوا دینے والوں کا بول بالا ہے۔ صادق القول، سیدھے سادھے اور مخلص لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ بنا مطلب کے مدد کرنے والوں کو بے وقوف اور احمق تصور کیا جاتا ہے۔ انسان اتنا لالچی ہو گیا ہے کہ بنا مطلب کوئی کام کرنے کو تیار نہیں یہاں تک کہ عبادت بھی مطلب، منفعت اور غرض کے لیے کرتا ہے۔

جس دن بیمار، کبیدہ خاطر اور اندیشہ مند ہوگا اسی دن خدا کو یاد کرے گا ورنہ اپنی دھن میں مگن، بے پروا اور تغافل شعار ہی رہتا ہے۔ اب حرام اور حلال کا تفاوت دھندلا ہو گیا ہے اور لگتا ہے وہ میزان ہی ٹوٹ گئی ہے جو یہ تمیز کر سکتی۔ جس کام میں انسان کو فائدہ نظر آتا ہے وہ کام کر لیتا ہے۔ دوسروں کا حق مارنا چالاکی تصور کرتا ہے۔ چوری اور دھاندلی کو دانائی، چالاکی اور ہنری مندی مانتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اتنا پست ہو گیا ہے کہ نیک، سچے اور پارسا کو تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مذہب سے شغف رکھنے والا دقیانوسی خیال کا اور برائی میں مبتلا شخص کو ماڈرن اور دنیا سے قدم سے قدم ملانے والا تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں جو خود چوری، شرابی، زانی اور مختلف برائیوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ کب نیک بشر سے غلطی سرزد ہو تاکہ اس کو اچھالا جائے۔ با آبرو کو بے آبرو کرنا ہمارا معمول بن گیا ہے۔ جس معاشرے میں انسان کے بجائے زر کو اہمیت دی جائے، جہاں انسان سے انسانوں جیسا سلوک روا نہ رکھا جائے۔ انسان، انسان سے مراسم فقط اپنے فائدے کے لیے رکھے اس معاشرے میں اخلاقی گراوٹ آنا اور زوال پذیر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

ہمارے معاشرے میں مطلب پرستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی پر مکمل اعتبار نہیں کرتا حتی کہ اپنے آپ پر بھی نہیں۔ انسان، انسان کو دھوکہ دولت کے لالچ اور اپنے مفاد کے لیے دیتا ہے اور یہی دولت اور لالچ ہے جس سے خود بھی جھانسے میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوکری کا لالچ دے کر لوٹنا اور بے وقوف بنانا اب عام سا ہو گیا ہے اور ہم بار بار اس جھانسے میں پھنس بھی جاتے ہیں۔ محنت کرنا ہمارا وتیرہ نہیں رہا بلکہ ہم حیلے بہانے سے کامیابی کی سیڑھی چڑھنا چاہتے ہیں۔

چھل دینا ہماری عادت بن گئی ہے۔ انسان، انسان کو صرف دھوکہ دینے کا عادی بن گیا ہے۔ کبھی زر کے لیے تو کبھی حسد، بغض اور کینہ پروری میں جل کر ایک انسان اپنے دوستوں اور عزیزوں کو یہ بنیاد بنا کر دھوکہ اور فریب دیتا ہے کہ اس کا حال احوال مجھے سے بہتر کیوں ہے اور یہ مجھ سے آگے کیوں نکل گیا ہے۔ ہم اپنی بہتری کے لیے اتنے کوشاں نہیں رہتے اور نہ ہی اتنے شاد ہوتے ہیں جتنے دوسروں کی بد تری اور تنزل سے خوش ہوتے ہیں۔

ہم حسد رکھنے اور کینہ پروری میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اشرف المخلوقات افضل الخلائق سے صرف اس لیے حسد اور بغض رکھتا ہے کہ وہ کامیابی اور کامرانی کے زینے کیوں چڑھ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی ترقی کے بجائے ہم ایک دوسرے کی تنزلی کے خواہاں ہیں۔ ہم ساری اخلاقی قدریں بھول گئے ہیں۔ اگر کوئی خلوص مند ہے تو اس خلوص مند ہونے کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مدعا اور مقصد ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی سوچ بدل کر اجداد کی فکر کے سہارے چلیں، پکی اور سچی توبہ کر کے مکاری کا نقاب اتار کر سچائی کا مکٹ پہنیں اور اپنی روایات و مذہبی امور پر عمل کر کے پھر سے ویسے ہی صدیق اور سچے، سچائی کے پجاری اور جھوٹ سے نفرت کرنے والے بن جائیں تاکہ ہماری آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی سنور جائے۔

ہم نے خود کو جو دنیا کمانے میں لگایا ہے اور جس کے لیے ہم انسان کے منصب سے گر گئے ہیں۔ ہمارا آدمی سے انسان بننا تب تک ناممکن ہے جب تک ہمارا ذہن صاف نہ ہو، ہم مطلب پرست ہونے کے بجائے دوسروں کی بھلائی کا سوچیں اور اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جس سے ان برائیوں کا قلع قمع ہو۔ ہم آدمی سے انسان بن گئے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پھر سے انسانوں کا صاف اور پاک معاشرہ بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).