ہر سال پانچ نئی بیماریوں میں سے ایک وبائی شکل اختیار کر سکتی ہے: ماہرین


ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں ہر سال پانچ نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں سے ایک کرونا وبا کی طرح وبائی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

دُنیا کی مختلف حکومتوں کے تعاون سے سائنس اور وبائی امراض کے ماحول پر اثرات کے حوالے سے چند روز قبل ایک ورچوئل ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔

ورکشاپ کے بعد جاری کی جانے والی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ دُنیا میں مستقبل میں بھی وبائی امراض کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

ورکشاپ میں شریک سائنس دانوں نے عالمی برادری کو خبردار کیا گیا ہے کہ کسی بھی نئی وبا سے مؤثر انداز سے نمٹنے کے لیے دنیا کو وبائی امراض کے متعلق حکمت عملی کو یکسر بدلنا ہوگا۔

ماہرین نے اقوامِ عالم کو بتایا کہ دنیا کو وبا کے پھیلنے اور فطرت کو ہونے والے نقصانات میں باہمی تعلق کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ تیزی سے پھیلنے والے موذی امراض کا اگر متحد ہو کر مقابلہ نہ کیا گیا تو نہ صرف وبا پھیل سکتی ہے بلکہ دنیا کی معیشت کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانیں بھی جا سکتی ہیں۔

بھوت اور چڑیلوں سے زیادہ خطرناک کرونا

رپورٹ میں اس بات پر زور دے کر کہا گیا ہے گو کہ کرونا وائرس جیسی عالمگیر وبا جانور سے انسانوں میں منتقل ہوئی لیکن انسان ہی ان تمام عوامل کا ذمہ دار ہے جس سے اس وبا نے جنم لیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی کا پھیلاؤ، زرعی اراضی کا غلط استعمال، آب و ہوا میں تبدیلیاں اور دیگر عوامل جو فطری نظام میں خلل ڈالتے ہیں اور جنگلی حیات سے انسانوں کی قربت بڑھاتے ہیں اسی سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق انہی عوامل کی بنا پر 1918 کے بعد ہسپانوی فلو کے بعد دُنیا کو کرونا وائرس کی شکل میں ایک عالمی وبا کا سامنا ہے۔

ماہر حیاتیات ڈاکٹر پیٹر دسزک کہتے ہیں کہ اب تو اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ کرونا وائرس کیسے پھیلا۔ اور وہی کارروائیاں جو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں وہی عالمی وبا کے پھیلانے کا ذریعہ بھی ہیں۔

لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود لوگ متحد ہو کر وباؤں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے تھا کہ “ہمارے لیے سمجھنے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں بیماریوں کے علاج تلاش کرنے کے بجائے ان سے بچاؤ کی تدابیر پر زور دینا ہو گا۔

رپورٹ میں ایک حیران کن انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 17 لاکھ ایسے وائرس موجود ہیں جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ یہ وائرس دودھ پلانے والے جانوروں اور پرندوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے 85 ہزار وائرس انسانوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa