کیا خود نمائی ایک مرض ہے؟



خود نمائی ایک ایسا مرض ہے جو باعث شفا بھی ہے۔ آئیے آج خود نمائی کے پیاز کی مختلف پرتیں کھولتے ہیں اور دیکھتے ہیں ڈور کا سرا ملتا ہے کہ نہیں۔ ہم سب اپنے آپ کو چھپا ہوا خزینہ تصور کرتے ہیں جو ظاہر ہونے کے لیے بیتاب ہے۔ پروانوں کو ہماری شمع کے اردگرد ہی طواف کرنا چاہیے۔ دنیا میں ہونے والے متعدد کاروبار ہماری خود نمائی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے وجود میں آئے ہیں۔ فیس بک ہو یا فیشن کی انڈسٹری ہمارے خود نمائی کے جذبے کو تسکین فراہم کرنے کے دیدہ زیب پلیٹ فارم ہیں۔ کہتے ہیں قیادت کا ہما بھی ان کے سر پر ہی بیٹھتا ہے جو خود نمائی کے فن سے آشنا ہوتے ہیں۔

قائدین نرگس کا پھول ہوتے ہیں جو پانی میں اپنا عکس دیکھ کر بالکل نہیں شرماتے ہیں بلکہ چھاتی چوڑی کر کے کہتے ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ مارکیٹنگ کا شعبہ وجود میں اس لیے آیا ہے کہ جنگل میں ناچنے والے مور کو پردہ اسکرین پر جلوہ افروز کیا جائے کیونکہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ خط کا لفافہ خط کے مضمون سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ ہمارے نصیب کی بارشیں اس کی چھت پر برستی ہیں جو بادلوں کا رخ چھت پر آ کر اپنی طرف موڑ لیتا ہے۔

سچ کی تلاش میں نکلنے والا مسافر خود نمائی کا راستہ اکثر بھول جاتا ہے۔ خود شناسی خود نمائی کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس جاتی ہے۔ خود شناسی کا سالک وہ مور ہے جس کی نگاہ اپنے پیروں کی جانب بھی چلی جاتی ہے۔ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ چراغ آستانہ بننے میں دلچسپی رکھتا ہے اور شمع محفل بننے سے اسے متلی آنے کی کیفیت لاحق ہو جاتی ہے۔ اسے پیش منظر سے زیادہ پس منظر محبوب ہوتا ہے۔

خود نمائی اظہار کا ذریعہ بھی ہے اور حسن اظہار انسان کا وصف خاص بھی ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خالی برتن کھٹرکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرنے سے قبل اپنے ہونے کا اعلامیہ جاری کر دینا درحقیقت اپنی شکست کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں جو نظر آتا ہے ہم اسے ہی سچ سمجھ لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سچ کبھی بطخ کی مانند سطح آب پر نہیں تیرتا ہے، سچ تو گہرے پانیوں کی مچھلی ہے جس کے لیے غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔ یہ اور بات کہ انسان کو تلاش حق سے زیادہ اپنے وجود کی تصدیق مطلوب ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ جب ہمارا احساس تشخص دوسروں کی گواہی کے مرہون منت ہو جاتا ہے تو ہم ان کے رحم و کرم کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ وہ ہماری توصیف کر دیں تو ہماری با چھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اگر ہم پر تنقید کر دیں تو ہمارا منہ لٹک جاتا ہے۔

میری آپ سب سے التجا ہے کہ اپنی زندگی کو دوسروں کے ردعمل سے وابستہ نہ کریں۔ اپنے فن کا اظہار ضرور کریں، داد ملے تو شکر کریں اور ناقدین کی تنقید سے دکھی نہ ہو بلکہ مولانا جلال الدین رومی کے رنگ میں رنگ کر دکھ کو وہ سوراخ سمجھیں جس سے روشنی آپ کے وجود میں داخل ہو سکتی ہے اور آپ کے سایہ کو نور میں تبدیل کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).