کمرشل تھیٹر اور ببو برال


الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں ایکٹنگ کی کلاس جاری تھی ہمارے ٹیچر سی ایم منیر صاحب ہمیں تھیٹر کی تاریخ پڑھا رہے تھے، یورپ میں تھیٹر مختلف ادوار میں کس فارم میں تھا؟ اس کا معاشرے میں کیا کردار تھا؟ اور حکومتوں کے خلاف تھیٹر نے کیا مزاحمتی کردار ادا کیا تھا وغیرہ، اس کے بعد وہ برصغیر کی تاریخ پر آئے جس میں انڈین تھیٹر ہسٹری تھی۔ جیسے ہی انہوں نے پاکستانی تھیٹر کا ذکر کیا تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کمرشل تھیٹر پر سخت الفاظ میں تنقید شروع کردی کہ یہ لچر ہے، بے ہودگی سے بھرپور ہے، تھیٹر کو بگاڑ دیا ہے، اس پر پابندی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

انہوں نے بڑے تحمل سے مجھے سمجھایا کہ پرفارمنگ آرٹ کی ہر فارم معیار کے لحاظ سے مختلف لیول رکھتی ہے۔ جیسے اگر ہم فلم کی بات کریں تو آرٹ موویز، اچھی کمرشل موویز اور پھر بی کیٹیگری کی فلمیں آتی ہیں۔ اسی طرح تھیٹر کی بھی مختلف اقسام ہیں، اچھا ہو یا برا معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے قبول کرتا ہے تو وہ پاپولر ہوتا ہے، اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہاں اس کو بہتر کرنے اور کنٹرول میں رکھنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے، ویسے بھی ایسی چیزوں کی بنیاد معاشرے کی گھٹن ہوتی ہے۔

جیسے جیسے آپ معاشرے کو دباتے چلے جاتے ہیں تو گھٹن مزید بد نما شکل میں چھوٹی چھوٹی درزوں سے نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہے

کلاس ختم ہونے کے بعد انہوں نے مجھے بلایا اور اسائنمنٹ دی کہ تمہیں کمرشل تھیٹر کا مشاہدہ کرنا چاہیے، انہوں نے الحمرا ہال ون مال روڈ لاہور پر ہونے والے کمرشل تھیٹر کے اور آرگنائزر کو کال کی اور میرا بتایا کے کل شام یہ طالب علم مشاہدے کے لیے آ رہا ہے۔ (سی ایم منیر صاحب لاہور آرٹس کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر رہ چکے تھے اور ایک انتہائی عمدہ اداکار اور اعلی شخصیت کے حامل تھے تھے )

اگلے ہی دن میں الحمرا ہال ون کے بیک اسٹیج پر موجود تھا۔ ڈرامے کی کاسٹ میں ببو برال، مستانا، نرگس، نسیم وکی، عابد کشمیری، انور علی وغیرہ شامل تھے، میں دو گھنٹے پہلے پہنچ گیا تھا اس لئے میں نے بیک اسٹیج سہولیات جن میں میک اپ روم، سیٹ لگانے کی ورکشاپ، لائٹ اور ساؤنڈ کنٹرول روم کو وزٹ کیا۔

جب میں ہال ٹو کے بیک اسٹیج پر پہنچا تو وہاں پڑے تھری سیٹر لکڑی کے بینچ پر کالی جینز اور سرخ ہائی نیک میں ملبوس ایک سرخ و سفید شخص کو دیکھا جو انتہائی خوبصورت آواز میں کوئی دکھی سا کلاسیکل راگ گنگنا رہا تھا، مجھے پہچاننے میں بالکل دیر نہیں لگی کیونکہ اس کا گول

well shaped bald head

اس کی پہچان تھا جی ہاں یہ ببو برال تھے میں ان کے پاس پہنچا سلام کے ساتھ تعارف کروایا، انہوں نے بیٹھنے کو کہا، چہرے پہ تاثرات نہ ہونے کے برابر تھے میں نے ان کے گانے کی تعریف کی اور کہا آپ کو تو کلاسیکل سنگر ہونا چاہیے انہوں نے میری اس بات کو بھی لفٹ نہیں کروائی شاید میری تعریف میں buttering mix تھی۔

پھر میں نے ان سے تھیٹر کے متعلق گپ شپ شروع کی۔ اس موضوع پر انہوں نے میرے کافی سوالوں کے تسلی بخش جواب دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر فنکار برا کام نہیں کرنا چاہتے، ان سے کروایا جاتا ہے پبلک ڈیمانڈ کے نام پر، آج بھی اگر ہمیں اچھا صاف ستھرا کام ملے تو ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں اور اس میں سیٹسفیکشن بھی زیادہ ہے اگر آپ جیسے لوگ اس میدان میں آئیں گے تو شاید بہتری آ جائے اور ہم آپ کے ساتھ ضرور کام کریں گے۔

پھر انہوں نے اپنا ایک مخصوص سگریٹ سلگایا (جس کی ایک سائیڈ پڑیا کی طرح بند تھی) اور گنگنانا شروع کر دیا۔ اسٹیج پر وخت ڈال دینے والا یہ فنکار حقیقی زندگی میں انتہائی سنجیدہ اور خاموش طبیعت آدمی تھا۔

ان کی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ معاشرے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں تھیٹر انڈسٹری میں کیا غلط ہو رہا ہے اور کیا صحیح ان کو پتہ تھا ویسے بھی فنکار عام انسان سے تھوڑا زیادہ حساس اور باریک مشاہدے کا حامل ہوتا ہے

جب میں ببو برال کے ساتھ بیٹھا یہ باتیں کر رہا تھا تو کچھ ہی فاصلے پر ایک نوجوان اداکارہ دو صحافیوں کے ساتھ محو گفتگو تھی اس اداکارہ کی ایک ساتھی اداکار سے شادی ہوئی تھی جو اب طلاق کے قریب پہنچ چکی تھی اور وہ صحافی صلح صفائی کروانے میں مصروف تھے کہ اچانک اس اداکارہ نے صحافیوں کو اونچی آواز میں ایسے مغلظات سے نوازنا شروع کیا جو میں نے کبھی کسی عورت کے منہ سے نہیں سنے تھے ( آج کل وہ اداکارہ کافی مشہور ہے ) وہ اٹھ کے ببو برال کے پاس آ گئی اور چیخنے چلانے لگی ”دیکھو ببوجی اے سب اودے نال رل گئے نے“ میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی اور ہال 1 میں واپس آ گیا۔

میں رات دیر تک وہاں رہا ڈرامے کے سارے پراسیس کو دیکھا، لوگوں سے ملا، ڈرامہ دیکھنے والوں کے خیالات جانے اور بہت کچھ نیا دیکھنے کے بعد گھر کی راہ لی۔

چند سال کے بعد میں پی ٹی وی میں عید الفطر کی چاند رات کا کامیڈی ڈرامہ بنانے کی تیاری کر رہا تھا تو میرے اسسٹنٹ نے مجھے بتایا کہ ببو برال صاحب کا فون آیا تھا وہ اس ڈرامے میں کام کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن میں پیسے بہت کم دے رہا ہوں کیا وہ ان پیسوں میں کام کر لیں گے؟

اگلے ہی دن انھوں نے خود مجھے کال کی اور کہا کہ میں بہت بیمار ہوں اور فراغت بھی ہے آپ کا جو بھی بجٹ ہے میں اس میں کام کر لوں گا۔

میں نے انہیں اپنے آفس بلایا تاکہ ان سے اسکرپٹ اور کردار پر بات ہو جائے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو میرے لئے ایک شاک تھا، انتہائی کمزور، آنکھوں کے گرد ہلکے، رنگت اڑی ہوئی، ”گردوں کی بیماری میں مبتلا“ نا چاہتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ باتیں کیے جا رہے تھے اور میں کالی جینز اور سرخ ہائی نیک میں ملبوس ایک سرخ و سپید روشن چہرے والے ببو برال کو یاد کر رہا تھا جو کوئی دکھی سا راگ گنگنا رہا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).