نکاح بالجبر۔ تجزیہ


یہ کہانی ایک بچی کی ہے جس کا نام آرزو ہے جب یہ پیدا ہوئی تو والدین کو بہت خوشی تھی۔ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب میں جلیبیاں تقسیم کیں گئیں۔ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ چند دن بعد ایک شکر گزاری کی عبادت بھی رکھی گئی اور بیٹی کو مسیحی عقیدہ کے تحت بپتسمہ یا مخصوصیت بھی کرائی گئی۔ قریبی رشتہ داروں مثلاً پھوپھو نے ضد کر کے بیٹی کا نام آرزو رکھا۔ لاڈ پیار سے پلنے والے بیٹی کے سکول کا معاملہ ہوا تو گھر میں ایک طوفان برپا ہو گیا ہر کوئی کہہ رہا تھا اس کو فلاں سکول میں کروائیں گے نہیں اس کو مشن سکول میں کرائیں گے۔

حالانکہ آمدنی ناکافی ہونے کے باوجود آرزو کا علاقہ کے ایک اعلیٰ سکول میں داخلہ کروا دیا۔ اب آرزو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سنڈے سکول میں بھی جانے لگی تاکہ اپنی مذہبی یعنی مسیحی تعلیم بھی سیکھ سکے۔ سنڈے سکول میں بچوں کو دو طرح کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ بچہ ایک اچھا مسیحی بن سکے جو مستحق انسانوں کے کام آ سکے اور دوسرا ایک اچھا پاکستانی یعنی اچھا شہری بن سکے۔ بچوں کے سنڈے سکول کے فنکشن میں یا ڈراموں میں مذہبی کرداروں کے ساتھ ساتھ ملی کردار بھی دیے جاتے ہیں یعنی بچی ہو تو نرس، پائیلٹ، ٹیچر یا پھر نن کا رول ملتا ہے تاکہ بچے بڑے ہو کر اچھے انسان اور اچھے شہری بن سکیں۔

یہی کچھ آرزو کے ساتھ بھی ہوا۔ آرزو ابھی چھٹی کلاس کی طالبہ تھی اور عام بچوں کی طرح بننا سنوارنا اور گھر گڑیا سے کھیلنا اس کا بھی شوق تھا جو اس عمر کے بچوں کے شوق ہوتے ہیں بالکل آرزو بھی ایسے گھر میں رہتی تھی۔ سب کچھ ٹھیک تو چل رہا تھا۔ ایسے میں ان کے گھر ایک ایسے شخص کا آنا جانا ہو گیا جس کے ان کے ساتھ کوئی خاندانی رشتہ داری نہیں تھی۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ آرزو کے باپ کا دوست ہو یا پھر گھر میں کوئی سودا سلف دینے آ جاتا ہو یا اس کی دکان میں جن کے ساتھ آرزو کے والد کا والدہ کے مراسم ہوں جو عموماً ہوتا ہے۔

یہ شخص اس مراسم (رشتہ) کی وجہ سے آتا جاتا ہو۔ مجھے یقین ہے وہ آرزو کی والدہ کو یا تو بھابھی کہہ کر پکارتا ہو گا یا پھر آپا۔ بس یہی ایک وجہ تھی کہ وہ گھر میں آتا اور دیر تک بیٹھا رہتا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا۔ ہو سکتا ہے آرزو کا باپ بھی اس وقت چھاتی چوڑی کر کر کے دوستوں کو اپنا تعلق دار بتا تا ہو۔ یا پھر آرزو کی والدہ اپنے بھائی (اظہر) کو اپنے ہاتھوں سے چائے بنا بنا کر پلاتی ہو۔ اور یہ بھی کہتی ہو۔

بیٹا آپ کا چاچو آیا ہے آو۔ ان کے پاس بیٹھو۔ دیکھو۔ بچو آپ کا چاچو ہے کوئی بات نہیں۔ آپ کے لیے مٹھائی لے کر آیا ہے۔ بھائی صاحب آج چائے پیئے بغیر آپ نہیں جا سکتے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے آرزو کے باپ نے کئی دفعہ فون کر کے کہا ہو۔ اظہر آئے تو بغیر کچھ کھائے پیے اس کو مت جانے دینا۔ آخر بچوں کا چاچا ہے۔ رشتے تو پھر ایسے ہی ہوتے۔ مقدس رشتے۔

سیانے کہتے ہیں رشتے بنائے نہیں نبھائے جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے آرزو کے والدین بھی یہ سوچتے ہوں گے۔ کہ رشتوں میں مذاہب کا کیا کام۔ کیا مسلم اور مسیحی بھائی بھائی یا پھر بہن بھائی نہیں ہوسکتے۔ آ ٓا ا ا۔ ہا۔ بس یہ بھول تھی۔ کیتھرین اور راجہ کی۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا۔ آج کے دور میں رشتے نہیں ہوتے۔ بلکہ سودے ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی انہوں نے اپنے بچوں کے ذہن میں کبھی یہ ڈالا ہوگا کہ بیٹا جب آپ کے چاچا آئیں تو پچھلے کمرے میں چلے جانا۔

پھر کیا ہوا۔ وہ جو بچوں کا انکل تھا۔ جانے کب اپنی فطرت سے مجبور ہو گیا۔ اس کا اصل اس کے باطن سے باہر آ گیا۔ اس کی نظر پھسلی اور سیدھی وہاں گئی جہاں اس کو فطرت لے گئی۔ گوشت خور۔ ساگ پات نہیں کھاتے۔ اس نے گوشت ڈھونڈ لیا۔ اور تاک میں بیٹھ گئی۔ جنگل ہے بھائی جنگل۔ یہاں جبر کی حکومت چلتی۔ بھوک کا قانون چلتا ہے۔ انصاف کا نہیں۔ پھر کیا ہوا۔ ایک دن وہ آیا اور ہرن کے بچے کو ایک ہی جھپٹے سے لے گیا۔ آرزو۔ غائب ہو گئی۔

آرزو اوجھل ہو گئی۔ وہ مٹھائی والے چچا۔ وہ ٹافیوں والے چچا۔ وہ تحائف والے چچا۔ جو کبھی اس گھر کے فرد کی طرح رہتے تھے۔ جن کے بارے میں دونوں میاں بیوی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے تھے۔ جس کی خاطر بہت سے رشتے دار ناراض بھی کیے ہوں گے۔ بہت سوں کو بلانا بھی بند کیا ہوگا۔ سمجھانے والوں کو پاگل بھی قرار دیا ہوگا۔ وہ بچوں کے چچا اب آرزو سے نکاح بالجبر رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے سے جنت کی تیاری میں حوروں کا کوپن بھر رہے ہوں گے۔ دو دن بعد معلوم ہوا۔ آرزو اغوا ہو چکی ہے۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ آرزو اغوا گئی۔ پھر نہ تھانہ اپنا تھا۔ نہ عدالتیں اپنی تھیں۔ سب کے سب غیر۔ جائیں تو کہاں جائیں۔ کس کو وکیل کریں۔ کس سے فریاد کریں۔ ملک کے سربراہ سے۔ وہ تو ریاست مدینہ کی خلافت کی تیار میں ہے۔

ماں کا۔ رونا۔ دانتوں کو پیسنا۔ آئیں۔ چیخیں۔ خدارا میرے بیٹی کو بچا لو۔ خدارا میری بیٹی کو بچا لو۔ اب بیٹی کہاں۔ اب تو اس کی جان اس ویہلنے میں پھنس چکی ہے۔ اب اس نے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ اغوا شدہ تو بازیاب ہو سکتی۔ مشرف با اسلام بازیاب کون کرے۔ خدارا۔ میرے بیٹی کو بچا لو۔ آرزو۔ میری بیٹی۔ تم گنہگار نہیں۔ تیرا قصور یہ ہے کہ تم جنگل میں پیدا گئی ہو۔ تم پاپستان میں پیدا ہو گئی۔ تیرے والدین نے اپنے اعتماد کی قربان گاہ پر تیری قربانی چڑھا دی ہے۔ آرزو۔ خدا تیرے حفاظت فرمائے۔ قوم تیرے لیے جہد و جہد کر رہی۔ خدا تیرا انصاف کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).