تقسیم کشمیر پر پاک بھارت اتفاق


پس منظر دیکھا جائے تو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جب وہ ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے، کشمیری صحافیوں سے گفتگو میں اپنے کشمیر پالیسی بیان کر دی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب پی ٹی آئی کو آزادکشمیر میں کوئی پذیرائی حاصل نہ تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل تقسیم کشمیر ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان، لداخ انڈیا رکھ لے جبکہ وادی اور آزادکشمیر پر مشتمل خودمختار ریاست قائم کر دی جائے۔ ان کے اس بیان پر خوب لے دے ہوئی تھی مگر جب سے عمران خان اقتدار میں آئے ہیں پالیسی وہی ہے جس کا وہ اظہار کر چکے۔

اگست 2019 سے قبل عمران خان اور نریندر مودی کے امریکی دوروں میں ہی کچھ بڑا ہونے کی پشین گوئیاں ہو رہی تھی مودی نے واپس آ کر 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے یونین ٹیریٹری بنا دیا۔ ردعمل سے بچنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگایا گیا جو آج تک جاری ہے۔

ادھر پاکستان میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی باتیں کافی عرصہ سے چل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جی بی کے عوام کو حقوق دیتے ہوئے صوبائی سیٹ اپ تو دیا مگر خصوصی حیثیت بحال رکھا تاکہ مسئلہ کشمیر متاثر نہ ہو۔ موجودہ عمران سرکار کا طرز حکمرانی آمرانہ ہونے کی وجہ سے مشاورت کا عمل تو پہلے دن سے ختم ہو چکا تھا اب یک طرفہ اعلانات مسئلہ کشمیر کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر رہے ہیں

ایک طرف وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان پر انتہائی بھونڈے طریقہ سے غداری کا مقدمہ درج کر کے کشمیری عوام میں بے چینی اور نفرت پھیلائی گئی تو دوسری جانب گزشتہ روز انتخابی دورہ گلگت بلتستان کے دوران عمران خان نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کر کے اپنے آمرانہ طرز عمل کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق کشمیری عوام کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ مشاورت کی گئی نہ ہی اپنے پارٹی صدر بیرسٹر سلطان کو پوچھا گیا۔

اصولی طور پر حکومت پاکستان تب تک جی بی کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کر سکتی جب تک کہ قومی اسمبلی، سینٹ، چار صوبائی اسمبلیوں اور آزادکشمیر و گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلیوں سے اتفاق رائے سے بل پاس نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ وزیراعظم پاکستان عقل کل ہیں اور انہوں نے کہہ دیا تو ہو گیا کے مثل گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر سے الگ کر کے پاکستان کا حصہ بنانے کا آغاز کر دیا گیا ہے جو 73 سالوں سے چلے آ رہے مسئلہ کشمیر کو بری طرح متاثر کرنے اور پاکستان کی خاطر جانوں، عزتوں اور املاک کی قربانیاں دینے والے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گا۔

5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے لداخ کو الگ کر کے جو اقدام اٹھایا تھا وہی پاکستان گلگت بلتستان کو الگ کر کے اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد کی ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیں تو ریاست کے 3 بڑے حصے گلگت بلتستان، لداخ اور اقصائے چنہا بالترتیب پاکستان انڈیا اور چین نے براہ راست اپنے پاس رکھ لئے ہیں جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی انڈیا نے یونین ٹیریٹری نمبر ایک قرار دے کر قبضے میں لے رکھا ہے۔ آزادکشمیر کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں کہ اسے ضلع راولپنڈی اور جہلم میں ضم کر دیا جائے گا جس کے بعد ریاست جموں و کشمیر کا وجود ہمیشہ کے لئے مسئلہ کشمیر کے ساتھ ختم کر دیا جائے گا

جس روز وزیراعظم پاکستان عمران خان گلگت بلتستان میں پانچویں صوبے کا اعلان کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت اسلام آباد میں کشمیریوں کی آل پارٹیز کانفرنس چل رہی تھی اور کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا گلگت بلتستان تھا۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان، صدر پیپلز پارٹی چوہدری لطیف اکبر، صدر مسلم کانفرنس مرزا شفیق جرال سمیت آزادکشمیر کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص قوم پرست جماعتوں، حریت کانفرنس اور سول سوسائٹی نے شرکت کی۔

وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ی عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لئے 73 سالوں سے جان، مال عزت و ابرو کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ جموں وکشمیرمیں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا ایک لاکھ وادی میں شہید ہوئے۔ 84 ہزار مربع میل ریاست ناقابل تقسیم وحدت ہے۔ کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں یہ حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔

تمام اکائیاں مل کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کافیصلہ کریں گی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کو لوکل اتھارٹیز تسلیم کیا گیا ہے اصل فیصلہ گلگت بلتستان کے عوام نے کرنا ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں الحاق پاکستان کا حامی ہوں مگر خود مختار کشمیرکا نظریہ رکھنے والوں کو بھی احترام کرتا ہوں۔ کشمیر کوئی جغرافیائی تنازعہ نہیں نا سرحدی مسئلہ ہے

انہوں نے کہا کہ وزارت امور کشمیر نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو آپس میں لڑایا۔ آزادکشمیر کی لیڈرشپ بھی اس میں قصوروار ہے۔ انہوں نے مسلح افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان کشمیریوں کی محافظ ہیں۔

اس موقع پر جموں کشمیر جائنٹ لیڈر شپ کونسل قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جس میں آزادکشمیر اور حریت کانفرنس کی قیادت شامل ہوگی۔ علاقائی ریفرنڈم کی تجویز کسی صورت قابل قبول نہیں۔ آزادکشمیر کی قیادت نے گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ تعلق نہیں رکھا۔ گلگت بلتستان کے معا ملے پر سارے لوگ مل کر بیٹھیں میری نظر میں تمام نظریات کے نیک نیتی سے ماننے والوں کی بہت اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فورم پر اپنی بات اللہ رب العزت کے فضل سے کی ہے مجھے کسی کا ڈر نہیں یہاں لاک ڈاؤن سے لوگ پریشان ہیں مقبوضہ کشمیر میں ایک سال سے فوجی محاصرہ ہے۔

مودی نے 5 اگست کو کاری وار کیا ہے اس پر وہ رکا نہیں اس کی نظریں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر ہیں۔ وزیر خارجہ کو اپنے آپ کو ملکی سیاست سے اوپر رکھنا ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ جیلوں میں بند مشکلات کا شکار ہیں ہم پر منحصر ہے کہ ان کی نمائندگی کیسے کرتے ہیں۔ کشمیر مختلف زبانوں، ثقافت اور مذاہب کا حسین امتزاج ہے۔ ہمیں آپس میں ڈائیلاک کرنا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کی مختلف اکائیاں ہیں مگر وہ اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ گلگت کے لوگوں کے ساتھ ہم نے بات کرنی ہے مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنی۔ پاکستان کے ساتھ ہمارا تعلق کسی مفاد سے بالا تر ہے۔ پاکستان کی حکومت کو کشمیر کے معاملہ پر سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا جزو لاینفک قرار دیتے ہوئے تقسیم کشمیر کے ایجنڈے کو مسترد کیا گیا۔

ایک طرف پاکستان کی حکومت بغیر قومی مفاہمت تقسیم کشمیر کے مذموم ایجنڈے پر کارفرما ہے تو دوسری جانب انڈیا مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں آزادکشمیر جو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے اس کے منتخب وزیراعظم پر غداری اور بغاوت کے جھوٹے اور نفرت انگیز مقدمات قائم کرنے سے وفاقی حکومت بیس کیمپ کو بھی تیزی سے کمزور اور بے اثر کرنا چاہ رہی ہے۔ 1947 سے آج تک بالخصوص 1989 کے بعد کی تحریک آزادی کشمیر میں لازوال قربانیاں دینے والے کشمیری سوال پوچھ رہی ہیں کہ ان کی قربانیوں کا کیا صلہ ملا؟ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو لاکھوں کشمیریوں کا خون کیونکر بہنے دیا گیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).