آئینی بالادستی کا سیاسی بیانیہ اور عدالت عظمی سے اٹھی تنہا آواز


ملک میں یہ دلچسپ بحث جاری ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں اپوزیشن لیڈروں نے سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت پر دو ٹوک مؤقف اختیار کرکے ملک میں آئینی بالادستی اور جمہوری استحکام کے لئے اقدام کیا ہے یا حصول اقتدار کے لئے اپنی ’سودے بازی‘ کی پوزیشن مضبوط کررہے ہیں۔ حکومت نے اس مشکل بحث کا حصہ بننے کی بجائے آئینی بالادستی کے معاملہ سے کنارہ کشی اختیار کرنامناسب سمجھا۔ اس کی بجائے وہ اپوزیشن لیڈروں کو غدار قرار دینے کے مشن پر گامزن ہے۔

اس طرح یہ دلچسپ صورت حال سامنے آئی ہے کہ جلا وطنی پر مجبور ملک کا ایک اہم سیاسی لیڈر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی وضاحت کرتے ہوئے اب عسکری لیڈروں پر ماضی قریب میں سیاسی انجینئرنگ کا الزام لگاتا ہے۔ اور یہ سیاسی مؤقف لے کر سامنے آیا ہے کہ ملک میں آئین بالادست ہونا چاہئے۔ انتخابی عمل سے لے کر سیاسی فیصلوں تک میں عسکری لیڈروں کی مداخلت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ موجودہ پیچیدہ اور مشکل سیاسی صورت حال میں یہ اہم سیاسی بیانیہ ہے۔ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پاکستان جمہوری تحریک میں شامل سب سیاسی پارٹیاں اس سیاسی مؤقف کی تائد و حمایت کرتی ہیں۔ ملک میں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ اسی عنوان سے شروع ہؤا ہے کہ ملک میں اداروں کی پسندیدہ حکومتیں مسلط کرنے کی بجائے آئینی تقاضوں کے مطابق غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے عوام کو حکومت چننے کا موقع ملنا چاہئے۔

اس بیانیہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ملک میں اس وقت آئین کی روح کے مطابق معاملات طے نہیں پاتے بلکہ کسی نہ کسی طرح انتخابات میں دھاندلی اور ایک خاص شخص یا پارٹی کو اقتدار دلانے کے لئے پراسرار قوتیں سرگرم رہتی ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن لیڈر اپنے بیانات میں عمران خان کو نامزد وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو جعلی حکومت قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قومی معاملات موجودہ حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ بلکہ بعض خفیہ قوتیں ان اختیارات کو استعمال کرتی ہیں اور منتخب لیڈر محض اپنی کرسی بچانے کے لئے اس انتظام کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے رفقا پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔ جمہوریت سے گریز ہی کی وجہ سے نیب سمیت تمام سرکاری اداروں کو مخالف سیاسی لیڈروں کی کردار کشی اور انہیں ’جعلی‘ مقدمات میں پھنسانے کا کام سونپا گیا ہے۔

بظاہر حکومت مخالف یہ بیانیہ دراصل حکومت کے خلاف نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اسے غیر منتخب اداروں کی گرفت سے ’آزاد‘ کروانے کا مطالبہ ہے۔ حکومت اسے یوں اپنے خلاف سمجھتی ہے کہ حالات کے دھارے نے اس وقت عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا ہے۔ یہ انتظام عمران خان کی محبت یا ان کی دیانت داری سے متاثر ہوکر نہیں کیا گیا بلکہ ملک کی باقی سیاسی قوتوں (جن میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سر فہرست ہیں) کا متبادل سامنے لانے کے لئے عمران خان اور تحریک انصاف کو ’تلاش ‘ کیا گیا تھا۔ عسکری ادارے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ کئی دہائیوں پر محیط تجربات کی روشنی میں کسی نئے چہرے کی تلاش میں تھے۔ پرجوش، کسی حد تک مقبول اور اقتدار حاصل کرنے کی شدید خواہش میں مبتلا عمران خان ایک ایسا ٹارگٹ ثابت ہؤا جو مقتدرہ کی ضرورت بھی پوری کرتا تھا اور تعاون کی اس پیشکش سے عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہوسکتا تھا۔

یہ مان لینے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ جس انتظام اور افہام و تفہیم کے تحت عمران خان 2018 میں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے، ان کی بجائے اگر کوئی دوسرا شخص بھی ہوتا تو وہ بھی خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو جھوٹا ہی قرار دیتا۔ نعروں کی بنیاد پر مسلط کی گئی سیاست کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہوتی ہے کہ اس میں کسی اصول کو بنیاد نہیں بنایا جاتا بلکہ خوشگوار باتوں سے مقبولیت حاصل کی جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں عوام ہی سراسر خسارے میں رہتے ہیں لیکن اس خسارے کو جاننے کے لئے تعلیم اور اس کی بنیاد پر حاصل شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کی شدید قلت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ملک میں آئینی بالادستی کے بیانیہ کی اندھادھند مخالفت کے جوش میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ اسے ہر مخالف میں دشمن کا ایجنٹ دکھائی دینے لگا ہے۔

پھر بھی یہ توقع کی جاتی تھی کہ نواز شریف اور اپوزیشن کے سیاسی بیانیہ کے مقابلے میں کوئی دوسرا سیاسی نظریہ بھی سامنے لایا جاتا۔ پاکستان میں لوگوں کو نعروں سے لبھانے کا کام صرف عمران خان ہی نہیں کرتے بلکہ دیگر سیاسی لیڈر بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس وقت مسلط کئے گئے حکومتی انتظام میں ایک تو اپوزیشن کو ان کا جائز جمہوری و آئینی استحقاق دینے سے گریز کیا گیا ہے، دوسرے اختلاف کرنے والے سیاسی لیڈروں کی کردار کشی کو نصب العین بنا لیا گیا ہے۔ اس بند گلی میں دھکیلے جانے کے بعد اپوزیشن کے پاس شاید واضح سیاسی مؤقف اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد قائم ہونے اور احتجاج شروع کرنے کے بعد سے ملک کے تمام تجزیہ نگاروں نے اسی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کسی طرح مکالمہ شروع ہونا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کی بجائے، سیاسی راستہ تلاش کرنا چاہئے۔

یہ راستہ اسی صورت میں تلاش کیا جاسکتا ہے اگر عمران خان یہ سمجھنے پر آمادہ ہوں کہ حالات کا دھارا تبدیل ہونے کے بعد ممکن ہے، وہ خود نواز شریف یا مولانا فضل الرحمان کی جگہ پر ہوں اور ’چار حلقے کھولو‘ قسم کا نعرہ لگاتے ہوئے دراصل وہی بات کرنے پر مجبور ہوں جو اس وقت اپوزیشن کہنے کی کوشش کررہی ہے۔ البتہ اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی مجبوری کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس وقت عمران خان کی بطور وزیراعظم جس بے بسی کا مشاہدہ وزیر اعظم ہاؤس کے باہر سے کیا جاسکتا ہے، شاید ’ پاور ہاؤس‘ کے اندر رہتے ہوئے اس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے یا ان کے ہمراہیوں میں سے کوئی ملک میں مجبور اور پابند حکومتوں کی تاریخ پر نگاہ رکھتے ہوں تو وہ وزیر اعظم کو بتا سکتے تھے کہ اپوزیشن کی تحریک تو دراصل ایک مجبور حکومت کی آزادی کی تحریک ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس کھیل میں یہ اندیشہ بہر حال موجود رہتا کہ  عمران خان جس مقتدرہ کی سرپرستی میں اس وقت حکمرانی کے پروٹوکول سے لطف اٹھارہے ہیں، وہ اس قدر مہربان نہ رہتی۔

 سیاسی بیانیہ کا مقابلہ کرنے کا دوسرا طریقہ، متبادل سیاسی بیانیہ ہوسکتا تھا۔ حکمران جماعت اگر یہ سمجھتی ہے کہ آئین کی بالادستی درست سیاسی اصول نہیں ہے یا موجودہ آئینی انتظام میں ایسے جھول موجود ہیں جن کے ہوتے صرف انتخابات کو فیصلہ کن نہیں سمجھا جاسکتا تو اس مؤقف کو کسی سیاسی پیرایہ میں بیان کرنے کی کوشش کی جاتی تاکہ عوام پوری تصویر دیکھ پاتے۔ اپوزیشن کا بیانیہ اور جوش و خروش سامنے آنے سے پہلے تحریک انصاف کے نمائیندے موجودہ آئینی انتظام کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان میں اٹھارویں ترمیم کے ’نقصانات‘ بتانے کے علاوہ صدارتی انتظام متعارف کروانے کے دعوے شامل تھے۔ کیوں کہ تحریک انصاف کے وفاداروں کو عمران خان میں ایسا دیدہ ور دکھائی دیتا ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ لیڈر قوم کو مل گیا ہے تو اسے تاحیات اقتدار و اختیار دے کر ہی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ قباحت صرف یہ ہے کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے بارے میں اس گمان سے متفق نہیں۔اور حکومت کو اندیشہ ہے کہ آئین کی حکمرانی کے متبادل کوئی مؤقف پاکستان کے لوگوں کو قبول نہیں ہوگا۔

ایسے میں یہ دلچسپ صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ آئین کی بالادستی کے اصول پر بات کرنے کی بجائے یہ بتایا جاتا ہے کہ آئین کے مطابق معاملات طے کرنے کی بات کرنے والے، خود بھی ویسی ہی اسکیم میں شامل رہے ہیں جس کے تحت اس وقت عمران خان اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ گویا اصول تو درست ہے لیکن اسے بیان کرنے والوں کی نیت میں کھوٹ ہے۔ حالانکہ کسی سیاسی اصول پر بات کرتے ہوئے کسی کی نیت نہیں بلکہ دلیل پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ آئین کو نظر اندازکرکے معاملات طے کرنے کے طریقہ کو ختم کروانے سے وہ عوامی آزادی اور جمہوری سربلندی کے ایک نئے عہد کا آغاز کرسکتے ہیں۔ پھر شاید نئے بیانیہ کا جو سہرا نواز شریف کے سر باندھا جارہا ہے، اس کا مستحق عمران خان کو سمجھا جاتا۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے ایک جج کی نگرانی کے لئے غیر آئینی طریقے اختیار کرنے پر براہ راست وزیر اعظم کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دو دلچسپ آبزرویشن دی گئی ہیں:

1)اثاثوں کا پتہ کرنے والے یونٹ نے غیرآئینی اختیار کے تحت جسٹس قاضی کی نگرانی کے لئے جن ایجنسیوں کی مدد لی تھی، وہ خود فیض آباد دھرنا کیس میں ان کے فیصلہ سے ناراض تھیں اور وزارت دفاع کے ذریعے اس فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل میں مدعی بھی ہیں۔

2)وزیر اعظم اس سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں جو خود فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی کی اپیل میں فریق بنی ہے۔ اور اس نے سپریم کورٹ سے یہ حیرت انگیز استدعا بھی کی ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس میں خود مختاری سے فیصلہ دینے والے جج کو عدالت سے ہی نکال باہر کیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے واضح کیا ہے کہ موجودہ آئینی انتظام کے تحت عدلیہ کی خود مختاری کے لئے اس کے ججوں پر اعتبار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف غیر قانونی نگرانی کے ذریعے ریفرنس دائر کرکے ملکی آئین کی اس بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے فاضل جج کے الفاظ کو اگر ملک میں آئینی بالادستی کے لئے تحریک کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اداروں کی خود مختاری اور آئین کے احترام کی آواز یں سیاسی جلسوں اور عدالتی فیصلوں میں یکساں شدت سے بلند ہورہی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جس طرح سیاسی طور سے یہ آواز بلند کرنے والے لیڈر اپوزیشن کا حصہ ہیں، اسی طرح سپریم کورٹ کا جج بھی یہ اصول نمایاں کرنے کے لئے اختلافی نوٹ لکھنے پر مجبور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali