ہم جنید جیسے کے لائق نہ تھے


\"farrahکسی کو اس کی گلوکاری کا دور پسند نہیں تھا تو کسی کو اس کی تبلیغ کرنے کا فیصلہ برداشت نہ تھا۔ کیسے منافق ہیں ہم۔ جب اس نے گلوکاری چھوڑ کر دین کی راہ پکڑی تو مجھے یاد ہے اس سے سوال پوچھا گیا: اچھا تو آپ کی ساری پچھلی کمائی تو حرام ہوئی۔ کیا آپ ابھی بھی وہ استعمال کریں گے؟ وہ بیچارہ خاموش ہو جاتا۔ اپنی مرضی سے زندگی گزارنا ویسے ہی ایک معاشرتی جرم ہے۔ اپنے گھر کی کمائی کا کوئی پتہ نہیں مگر دوسرے پر انگلی اٹھانا فرض عین ہے۔

جب اس سے بھی دل نہ بھرا تو اس پر ہمارے خودساختہ \’کامل مومنین\’ کی جانب سے توہین کا الزام لگایا گیا۔ گستاخ، کافر، جہنمی نہ صرف کہا گیا بلکہ لکھا بھی گیا۔ اپنے آپ میں ایک مذہبی اسکالر اور دکان رمضان چمکانے والے نے چنگاری کو ہوا اور اپنی ریٹنگ کو بڑھاوا دینے کے لئے اس کی مرحومہ ماں کو بھی نہ بخشا۔ ائیرپورٹ پر سند یافتہ جنتیوں نے اس بیچارے سند یافتہ جہنمی کو دھکے، مکے اور گالیوں سے نوازا۔ میری نظر سے کوئی ایسی کلپ یا تحریر نہیں گزری جس میں اس نے کسی بھی شخص کو کوسا ہو یا بددعا دی ہو یا برساتی ملاؤں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر کسی کو کافر، بدعتی، گستاخ یا جہنمی قرار دیا ہو۔

آج وہ چلا گیا۔ آج پورا ملک، سارا سوشل میڈیا اور تمام معززین اسے تعریفی کلمات سے نواز رہے ہیں۔ ریٹنگ جب منہ کو لگ جائے تو چاہے حادثہ ہو یا کارنامہ ہر طرح کے موقع کی مناسبت سے خبر بنتی ہے، پیکج لگائے جاتے ہیں اور آنسو چاہے خوشی کے ہوں یا غم کے، باقاعدہ پورا ماحول بنایا جاتا ہے۔

اخلاقی طور پر زوال پذیر قوم سے اور امید ہو بھی کیا سکتی ہے۔ ہم بچوں کی تربیت کیا کریں گے ہم تو خود اخلاق سے عاری ہے۔ دھونس، دھمکی، بھرم اور اجارہ داری ہماری فطرت کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ تاثر گہرا ہو چکا ہے کہ اگر ہم تمیز اور شرافت سے بات کریں گے تو ہم کمزور سمجھیں جائیں گے۔ آج تقریباً ہر گھر میں چھوٹوں کو سکھایا جاتا ہے کہ کسی بھی اختلاف کے جواب میں اگلے پر لٹھ لے کر چڑھ جانا۔ غلبہ اور تسلط جب ہر ایک کی خواہش بن جائے تو برداشت رخصت ہو جاتی ہے اور جب برداشت کسی معاشرے سے ختم ہو جائے تو وہاں الزام پر سزا اور تہمت پر فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ ہم نے کسی کی بات کو غلط جانا، خود ہی الزام لگایا، جود ہی عدالت لگائی اور خود ہی فیصلہ سنایا کہ ’یہ بندہ تو صحیح نہیں‘۔ کسی کو چور کہہ کر جلا دو، کسی کو گستاخ کہہ کر مار دو، کسی کو غدار کہہ کر نشان عبرت بنا دو؛ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

آج وہ نہیں۔ آج ہم اسے خراج تحسین پیش کریں گے۔ آدھے اس کے گانے اور آدھے اس کے کلام سن کر دن گزاریں گے۔ سب مارننگ شوز میں اسی کی باتیں ہوں گی۔ ہر شخص خود کو اس کا قریبی دوست بتائے گا۔ چہار سو اس کے اخلاق کا چرچہ ہوگا۔ اس وقت کسی نے شو نہ کیا جب اسے گستاخ کہا گیا تھا۔ تب اس کے قریبی بھی شاید دور ہو گئے ہوں گے۔ کسی اینکر میں یہ جرات نہ تھی کہ گستاخ کو صفائی کا موقع تو دیں۔ خیر دلوں کے بھید صرف خدا کے پاس ہوتے ہیں۔ محض ریٹنگ کی لڑائیاں اور حلقوں کی سیاست کسی کو کافر اور کسی کو غدار بنا دیتی ہیں۔ وہ نہیں تو کوئی اور ہوگا لیکن قدرت کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم منافقوں کا کوئی یوم آزادی اس کی آواز سنے بغیر نہیں گزرے گا۔ اس جیسے تو صدیوں میں ہوتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جنید جیسے انسان کے لائق نہ تھے اسی لئے ہم اس کی ویسے قدر نہ کر سکے جیسا اس کا حق تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments