موت، ناسٹلجیا اور بے معنی باتیں


\"zafarullah-khan-3\"کل کیا لکھا تھا تم نے؟

میں نے لکھا تھا انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس کے بعد کیا لکھا تھا؟

اس کے بعد لکھا تھا کہ ہماری تہذیب کی ایک اچھی روایت یہ ہے کہ ہم مردوں کی ہڈیاں نہیں نوچتے۔ امید ہے دوست اس روایت کا پالن کریں گے۔ انسانی زندگی میں موت سب سے بڑا حادثہ ہوتا ہے۔ ہم مرنے والے کے خاندان کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ جنید جمشید سے جس کا جو اختلاف تھا وہ درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اس پر بحث نہیں۔ اب جنید جمشید نہیں رہے، اس لئے اختلاف بے معنی ہے۔

کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تم ایک مخصوص قسم کے سیلبرٹی برانڈنگ کا شکار ہو چکے ہو؟

ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر یہ برانڈنگ میں نے نہیں کی۔

لیکن تم اس برانڈنگ کا حصہ تو بن رہے ہو۔

 آخری تجزیئے میں ضروربن رہا ہوں گا مگر میں مرنے والوں میں سے اسی ایک آدمی سے واقف تھا۔

کیا تمہیں نہیں لگتا کہ کوئی شخص کسی بھی حیثیت میں جب اپنے نظریات کے حوالے سے سماج پر اثر انداز ہو رہا ہو تو اس کے نظریات کا زیر بحث آنا لازم ہے۔

نظریات زیر بحث ضرور آنے چاہیں مگر جب اس کا موقع آئے گا۔ موت، جنازہ اور تدفین کا موقع نظریات زیر بحث لانے کا موقع تو نہیں ہے۔

گویا ہر آدمی جب مر جائے تو ہمیں اس کے غیر معقول نظریات جس کی وہ مسلسل ترویج کرتا رہا ہو، اس پر خاموشی اختیار کر لینی چاہیے؟

ایسا کب کہا میں نے۔ کیا ہم نسیم حجازی یا قدرت اللہ شہاب کے نظریات کو زیر بحث نہیں لاتے۔ میں تو اس مخصوص موقع کی بات کر رہا ہوں۔

اچھا! تو پھر تمہیں اسامہ بن لادن یا حکیم اللہ محسود کی موت پر بھی یہی کہنا چاہیے تھا کہ مرنے والا تو چلا گیا اب مردوں کی ہڈیاں نہیں نوچنی چاہیں۔

تو گویا جرم کرنا ا ور ایسے نظریات رکھنا جیسے سماج کا ایک طبقہ غیر معقول سمجھتا ہو، ان میں کوئی فرق نہیں ہے؟

یہی غیر معقول نظریات ہی ایک شخص میں متشدد رجحانات کو پروان چڑھاتے ہیں۔

درست ہے مگر تشدد کے حامل رجحانات رکھنا اور تشدد میں جرم کرنے میں فرق تو ہے نا۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم نظریاتی سطح پر ایک ایسے مقام پر کھڑے ہونے کے خواہش مند ہو جہاں نظریاتی تقسیم میں ایک درمیانی سی صورت پر کھڑے ہو کر معقول اور معتدل آدمی کہلا سکو؟

میرا خیال ہے ہر سمجھدار آدمی کوچاہے کہ وہ جس بھی نظریاتی فکر سے متعلق ہو، اسے بنیادی طور پر معقول اور معتدل تو ہونا چاہیے۔ اس \"junaid-jamshed-2-1481117545\"کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اس سماجی دباﺅ سے ابھی تک نہیں نکل پایا جہاں کسی ایک طبقے کو مجھے اپنا نمازی ہونے کا یقین دلا کر قبولیت چاہیے ہو گی یا کسی دوسرے طبقے کو یہ یقین دلانا پڑے گا کہ میں ہم جنس پرستی کو انسانی آزادی کا معاملہ سمجھتا ہوں؟میرے لئے سماج موم بتی مافیا اور اگربتی مافیا کے مطلق فرق میں تقسیم نہیں ہوتا۔

وضاحت کرو۔

 دیکھو ہمارے سماج کا تانا بانا بہت سارے تہہ در تہہ پردوں میں منقسم ہے۔ یہاں مذہبیات میں ہند آریائی ثقافت کے بہت سارے عوامل داخل ہیں۔ خود مذہب کے نظریہ علم(epistemology) عرب ثقافت اورعرب قومیت کے بہت سارے رجحانات داخل ہیں۔ پھر عجمی تفہیم کے بہت سارے عوامل ہیں۔ اسی طرح لبرل ازم، جدید قومی ریاست یا فرد کی آزادی جیسے معاملات اس سماج کے اپنے تعبیرات نہیں ہیں۔ یہ تعبیرات جس سماج سے آئے ہیں وہاں ان تعبیرات نے انسانی زندگی کو ترقی اور آسائش کی بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ اسی ترقی کی بنیاد پر ان تعبیرات کو یہاں بھی پذیرائی ملی۔ مگر ہمارا سماج تاریخ کی اس شکست و ریخت سے نہیں گزرا جہاں تجدید و اصلاح کی صورت میں سماج کے پرانے سیاسی اور سماجی تصورات منہدم ہو کر نئے سرے سے تعمیر ہوتے ہیں۔ اس لئے سماج قومی ریاست اور مذہبی ریاست کے بیچوں بیچ معلق ہے۔ تہذیبی روایات اور فرد کی آزادی ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ لبرل اقدار اور مشرقی ثقافت میں جنگ کی سی کیفیت ہے۔ سماج کے اس فیبرک میں خود کو کسی بھی خیالی اور یوٹوپیائی گروہ سے اس طرح متعلق نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ہاتھوں میں سے گویا دایاں یا بایاں ہاتھ تو وجود ہی نہیں رکھتا۔ خصوصا اس صورت میں جہاں سماج کے باسی، ا فراد کا تعین اس بنیاد پر کرتے ہو ں کہ یہ گروہ قندیل بلوچ کا ہے اور یہ گروہ جنید جمشید کا ہے۔

تم واپس لوٹ آﺅ۔

میں آﺅں گا۔ مجھے ایک دن تو آنا پڑے گا لیکن مجھ میں ابھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں افغانستان سے آنے والی کسی نوجوان کی لاش دیکھ کر اس کے باپ کو مبارکباد دے سکوں۔

تو کیا وہاں بھی لاشوں پر مبارکباد کا سوال درپیش نہیں ہے؟ کیا وہاں بھی لاشیں نہیں پڑیں؟\"junaid-jamshed\"

 یہ سوال درپیش ہے اسی لئے اس موضوع سے جونجھ رہے ہیں۔ لاشیں بھی پڑی ہیں اور دیس کے ہر کونے میں پڑی ہیں۔ کیا کریں کہ اب غم کے چراغ روز جلتے ہیں۔ ہم ایک ایسے قبرستان کے میں کھڑے ہیں جہاں لاشوں کی گنتی کا مرحلہ درپیش نہیں ہے۔ اب سوال یہ درپیش ہے کہ کس کی قبر سے خوشبو آتی ہے اور کون سی لاش متعفن ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ مجھے واپس آنا چاہیے۔ دسمبر کے کسی رات سو کر جب صبح میں اٹھوں گا زمین نے برف کی چادر اوڑھ رکھی ہو گی۔ میرے اندر کا بچہ جاگ جائے گا۔ میں برف میں ننگے پیر بھاگ کر ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھاﺅں گا اور بھاگتے بھاگتے ایک زمین کے ایک وسیع ٹکڑے پر ایک دائرہ بناﺅں گا۔ پھر میں اعلان کر دوں گاکہ یہ میرا گھرہے۔ اب اس گھر میں برف پر کوئی بھی قدم رکھ کر میری برف میلی نہیں کرے گا۔ ایک فاتحانہ تسکین کے بعدمیری نظر ساتھ کھڑی میری چھوٹی بہن پر پڑی گی۔ اس کی آنکھوں میں اداسی ہو گی۔ کیونکہ وہ برف پر لکیر کھینچ کر اپنا گھرنہیں بنا سکتی۔ کیونکہ گھر بنانا تو صرف لڑکوں کا کھیل ہے۔

میں اس دن واپس ضرور لوٹوں گا جس دن مجھے معلوم ہو گا کہ اب برف پر لکیر کھینچ کر میری بیٹی اپنا گھر بنا سکتی ہے۔ اگر میں اتنا نہ لڑ سکا کہ اپنی بیٹی کو گھر بنانے کا حق دلا سکوں تو میں اتنا تو ضرور لڑوں گا کہ میری بیٹی اپنی مرضی کا گھر چن تو سکے۔ تمہیں یاد ہے نا جب تازہ گری ہوئی برف پر ہمارے قدم پڑتے تھے تو اس میں سے ایک چرچراہٹ نکلتی تھی۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں ناسٹلجیا کا ایسا شکار ہو چکا ہوں کہ برف کی وہ چرچراہٹ اب مجھے ایک چیخ محسوس ہوتی ہے۔ میراگلا رندھ جاتا ہے۔ میرے گلے کے اندر سے کچھ نمکین سا گرتا رہتا ہے جس سے میرے سینے میں درد اٹھتا رہتا ہے۔

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments