معقولیت آئین پسندی نہیں؟


امریکی صدارتی انتخابات کے غیر حتمی نتیجے کے مطابق ڈیمو کریٹک جو بائیڈن عوامی اور الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی واضح برتری سے کامیاب ہو رہے ہیں جو بائیڈن کی کامیابی سے امریکی پالیسیوں میں سرایت شدہ جنگی جنون، قبضہ گیری تسلط اور جارحانہ پن ختم نہیں ہو گا تاہم ڈیمو کریٹک صدر امریکی حلقہ ہائے اثر سے باہر کے ممالک میں جمہوریت قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے ذریعے امریکی مفادات کا تحفظ کریں گے پاکستان کے عوام کے لئے اس میں دلچسپی کا پہلو یہی ایک نقطہ ہے اور لمحہ موجود میں پاکستان کے عوام کے لئے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ سیاسی درجہ حرارت میں بڑھوتری کے نتیجے میں ریاستی طاقت کے بے دریغ استعمال کے امکان میں شاید کمی کا امکان زیادہ واضح ہوا ہے بہرحال امریکی تاریخ اس کے برعکس کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

ملکی سیاسی مباحثے میں جمہوری تحریک کا بیانیہ مرکزی موضوع بن چکا ہے اختلاف ہو یا اتفاق۔ ذرائع ابلاغ کے تمام ادارے اور عامتہ الناس اس بیانیے پر بات کر رہے ہیں صنعتی تجارتی یا متوسط کاروباری ملازمت پیشہ افراد تعلیم یافتہ پیشہ وران۔ طلباء اور محنت کشوں میں یہی موضوع زیر بحث ہے متذکرہ صدر حلقے اس موضوع پر آئین و جمہوریت و جمہور کی حکمرانی کی حمایت جبکہ زرعی معیشت کے تاریخی مزاج و رجحانات سے جڑے حلقے اب بھی اس کے لئے ببانگ دھل حمایت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

پی ڈی ایم کے 26 نکات میں نمایاں آئین و جمہوریت کی مکمل بحالی۔ مداخلت کا خاتمہ اور منتخب حکومتوں کو مکمل اختیارات کے ساتھ حاکمیت دلانے کا عزم نمایاں ہے نظری اعتبار سے پی ٹی آئی کی طرف سے اس کی مخالفت نامناسب اور اس لئے بھی ناقابل فہم ہے کہ ماضی قریب میں جناب عمران خان ایسی ہی بولی بولتے رہے ہیں اور اب جبکہ وہ برسراقتدار ہیں تو فیصلہ سازی میں شراکت کے برعکس مکمل اختیارات کی دستیابی ان کے لئے بھی مفید المعنی عمل و مرحلہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ اقتدار سنگھاسن تک پہنچنے کے لئے جناب عمران نے جن چوکھٹوں پر سجدے کیے ہیں اب وہ دربار انہیں اجازت نہیں دیتے ہیں کہ با اختیار اقتدار کا مطالبہ کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے پی ڈی ایم یا نواز شریف کے بیانیے کی براہ راست مخالفت کرنے کی بجائے یا اسے غلط قرار دینے کے برعکس اس کا رخ اس دربار کی جانب موڑنا پسند کیا ہے جس کی ”آذریت“ کی فنی مہارت مسلمہ بھی ہے اور رائج بھی۔ اس طرز عمل کے ذریعے دراصل عمران خان نواز شریف کے موقف کو عملاً تقویت دے رہے ہیں تاہم اس کی صراحت جناب عمران خان اقتدار سے رخصتی کے بعد ہی کریں گے میری دلیل یہ ہے کہ حکومت نے میاں نواز شریف کی تقاریر کی اشاعت پر پابندی کے لئے ان کے مفرور ملزم ہونے کا سہارا لیا تھا سب جانتے ہیں کہ اس دلیل کے نفاذ سے دیگر بہت سے مفرور سزا یافتہ ملزمان بھی گرفت میں آتے ہیں لیکن جن کا ”ذکر“ حکمران ترجمانوں کے بس میں نہیں۔

نواز شریف پر پابندی کا حقیقی مقصد عوام کو براہ راست اس تنقیدی موقف کی آگہی سے محروم رکھنا تھا جس میں طاقت کے بل بوتے پر سیاست میں مداخلت کرنے اور آئین کی حدود پامال کرنے والوں کا نام آتا ہے مگر حیرت انگیز عمل یہ ہے کہ اپنی ہی عائد کردہ پابندی کی بالواسطہ دھجیاں بھی وزراء اور معاونین خصوصی نے خود خوب اڑائی ہیں بھارتی ذرائع ابلاغ کے حوالے دے دے کر وزراء نے اپنے خطاب بیانات اور پریس کانفرنسز میں ان باتوں کو بار بار دہرایا ہے جن کی اشاعت روکنے کی اس طرف سے خواہش و کوشش کی گئی تھی حکومت کے اس عمل کو کچھ افراد نے نادان دوست کا طرز عمل کہہ کر ہدف بنایا ہے۔

عمیق نگاہی سے دیکھیں تو شاید یہ نادان دوست کی بجائے کھسیانی بلی والی مثال ہے جو اب کھمبے کو نوچ رہی ہے۔ یہ گمان کرنا کہ عمران خان متبادل اور معقول استدلال کے ساتھ نواز شریف یا پی ڈی ایم کے موقف کی مخالفت کر سکتے تھے درست نہیں کیونکہ سیاسی نظریات اور سیاسی حرکیات کی کیمسٹری سے ناواقفیت اس کا بنیادی سبب ہے جسے ”اچھی توقعات“ کے اظہار میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

حکومت نے سیاسی تحریک کے دوران جبکہ اہم مسائل کی ببانگ دہل نشاندہی کی جا رہی ہے سیاسی آئینی اور انتظامی ڈھانچے کے متعلق ایسا کوئی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جو رائج (آئین میں درج) نظام سے متصادم ہو۔ البتہ حکومت دبے الفاظ میں کبھی صوبائی خودمختاری یا اٹھارہویں ترمیم پر تنقید کرتی رہی ہے اور کبھی بالواسطہ طور پر صدارتی یا نیم صدارتی نظام کی حمایت کرتی رہی ہے اس لیے وہ نہ ہی کھل کر آئینی امور بارے کوئی متبادل نقطہ نظر دے رہی ہے نہ ہی کھل کر پی ڈی ایم کے بیانیے کی اصولاً مخالفت کرتی نظر آ رہی ہے۔

بلکہ وہ حالیہ جمہوری بیانیے کو فوجی محکمے کے خلاف باغیانہ خیالات بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ جو حکومت کی ذہنی سیاسی عدم بلوغت کی نمایاں شکل اختیار کرچکی ہے۔ جناب عمران خان ترکی، ملائیشیاء، ایران اور چین جیسے نظام کو اپنانے کی متضاد الخیال باتیں کرتے اور ریاست مدینہ بنانے کے مدعی بھی بنتے ہیں اس طرح وہ شاید مضبوط مرکزی اقتدار یا شخصی اختیارات کے طلب گار دکھائی دیتے ہیں چنانچہ گمان گزرتا ہے کہ شاید انہیں مسلط کرنے والے ان کے ذریعے اپنے لئے مفید۔

فرد واحد کے ہاتھ میں مرتکز اختیارات کا حامل آئینی بندوبست کرنے کی سعی کر رہے ہیں جناب عمران خان کی اپوزیشن پر حالیہ تنقید کا محور پی ڈی ایم کے موقف کو ملکی سیکورٹی اور دفاعی ادارے کے منافی بنانے حزب اختلاف کو بھارت کا ایجنٹ قرار دینے اور انہیں چور ڈاکو کہنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس طرز گفتار نے ملکی سیاسی درجہ حرارت کو انتہائی بلند سطح پر پہنچا دیا ہے جسے عموماً۔ پوائنٹ آف نو ریٹرن کہا اور بدترین خدشات کا حامل قرار دیا جا رہے ہے

اگر عمران خان صاحب معقول دلائل کے سہارے سیاسی بصیرت مندی کے ساتھ رائج الوقت آئینی بندوبست کو ناکام سمجھتے ہیں تو پھر انہیں پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کو قائل کرنے کے لئے باہمی گفت و شنید کرنے پر توجہ دینی چاہیے چونکہ ایسا نہیں ہو رہا تو یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ وہ اپوزیشن کے بیانیے کو حکومت مخالف نہیں سمجھتے بلکہ اسے شعوری طور پر عسکری دفاعی محکمے کے خلاف پیش کر کے اپنے ماضی کے بیانات کی عملی تائید کرر ہے ہیں۔ یہ کمزور پوزیشن ہے جو حکومت کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بنے گی۔ لگتا ہے حکومت کے پاس کوئی متبادل آئینی پیکج ہے نا ہی اس کی اہلیت۔

یہ استدلال بھی قومی مباحثے میں سامنے آیا ہے کہ ملک میں دو جماعتی سیاسی سانچے کے خلاف ”آذریت“ کے ماہرین نے عمران خان کو متبادل کے طور پر تراشا تھا تاکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے مقابل ایک تیسرا متبادل پیش کر کے ملک میں سیاسی استحکام لایا جا سکے اگر اس مفروضے میں ذرا سی بھی صداقت ہوتی تو ”بہتر متبادل“ تراشنے والے 2018 ء کے بعد فوری طور پر موجودہ حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے اسے کلی طور پر با اختیار بنا کر خود کو اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود کر لیتے ایسا نہیں ہوا تو یا تو ان کو اپنے انتخاب کے ناقص ہونے کا یقین تھا یا پھر یہ تصور ہی باطل ہے کہ طاقت ور کسی ”بہتر سیاسی متبادل“ میں سنجیدہ دلچسپی رکھتے تھے۔

عمران اور ان کی جماعت کی 2011 ء کے بعد اٹھان کا نمایاں عنصر سابقہ سیاسی ادوار کو ہدف تنقید بنانا تھا 2011 ء کے بعد عمران خان کی تنقیدی گفتگو سے بہت حد تک ”غیر سیاسی ادوار“ خارج ہوتے چلے گئے تھے گویا غیر سیاسی مقتدرہ کے لئے جناب عمران خان بہتر متبادل سیاسی رہنماء کی بجائے ایک ایسے کردار تھے جو اپنے ”کرشماتی کردار“ کے ذریعے ذرائع ابلاغ اور دیگر کے مکمل تعاون سے صرف ”سیاست جمہوریت اور پارلیمان کو بے توقیر“ کریں ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ جناب عمران خان اس ہدف کے حصول میں بہت حد تک کامیاب ہیں مگر غبارے سے ہوا تب نکلی جب احتساب کے عمل کے نتائج سامنے نہیں آئے الٹا احتساب انتقام کا روپ اختیار کر کے مشکوک ہو گیا۔

علاوہ ازیں اے پی سی کے قیام سے کوئٹہ کے جلسے تک رونما ہوئے واقعات اور سرکاری بیانات کی نوعیت نے پی ڈی ایم کی قیادت اور نواز شریف کے ببانگ دہل ملکی معیشت سفارت ’تجارت‘ معاشرت ’ثقافت اور سیاست میں آلودگی کے پوشیدہ اسباب و افراد کے کردار کو بیان کرنے پر مجبور کر دیا نواز شریف یا مسلم لیگ نون کی صورت میں پنجاب کی سیاسی اشرافیہ پہلی بار غداری کے سرکاری فتوؤں کی زد میں آئی تو ملک کے دیگر صوبوں میں اس قیادت پر عوامی اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا یہ سب کچھ حکومت و اختیارات کے مالک حلقے کی روایتی مقبولیت پسندی پر مبنی سوچ اور ضد و انا کی وجہ سے سامنے آیا۔

سیاسی جماعتوں میں تطہیر کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر قدغنوں نے سرکاری موقف و اعمال کی حقیقت کھول دی عدلیہ پر یلغار بالخصوص جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور پھر اسے سپریم کورٹ میں مسترد کیے جانے سے وسیع معنوں میں فیض آباد دھرنے کے تمام پوشیدہ کرداروں کو بے نقاب کیا اب سیاسی منظر نامہ انتہائی بلند درجہ حرارت کو چھو رہا ہے یہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے ساتھ بے بصیرتی اور روایتی سوچ پر مبنی سرکاری بیانیے پر اصرار کا منطقی نتیجہ ہے جسے دلیل سے نہیں بلکہ عمل سے بدلنا پڑ رہا ہے۔

ذرائع ابلاغ درپیش صورتحال میں مکالمے کی افادیت بیان کرتے ہیں لیکن اس مکالمے کے فریقین کا نام لینے سے ہچکچاتے ہیں کیا آئین کی موجودگی میں کسی مکالمہ کی ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب مکالمے کی ضرورت ختم کرتا اور ریاست کے تمام اجزائے ترکیبی کو آئین پسند معقولیت اپنانے کا بلیغ اشارہ ہے جسے نا سمجھنا ملکی مفادات کے سراسر منافی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).