جنید جمشید، ڈاکٹر عبدالسلام اور پاکستانی آنٹی


\"maliha آنٹی سے معذرت کے ساتھ لیکن پاکستانی آنٹی کی تین خصوصیات جنہیں ان کی قومی خصوصیات بھی کہا جا سکتا ہے، ان میں بھتیجے بھتیجیوں کی کامیابیوں سے جلنا، بھاوج پر نکتہ چینی کرنا اور ہر موقع پر فساد کھڑا کرنا شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو ہر پاکستانی چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا، امیر ہو یاغریب یا پھر کسی بھی ذات برادری سے اس کا تعلق ہو۔ اس کے اندر یہ آنٹی چھپی ہوئی ہے جو بھتیجوں کی خوشیوں سے جلتی، بھاوج کے کاموں میں کیڑے نکالتی اور کبھی مطمئن نہیں ہوتی ہے۔

ویسے تو یہ آنٹی ہر وقت ہی پاکستانیوں کے اندر سے امڈ امڈ کے باہر آنے کو بیتاب رہتی ہے لیکن پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے سانحے اور اس میں معروف مبلغ جنید جمشید کی موجودگی کی خبر نے پاکستانیوں کے اندر چھپی اس آنٹی کو ایک بار پھربھرپور انداز میں اپنا رنگ دکھانے کا موقع دے دیا ہے۔ اگر وہ اتنا ہی اچھا تھا تو ایسی المناک موت کیوں مرا؟ اس کے ہمراہ اس کی دوسری ، تیسری یا پھر چوتھی بیوی تھی تو وہ کیسا مبلغ تھا جو خود شادیوں پر شادیاں رچا رہا تھا؟ اس کا چہرہ باریش تھا لیکن کیا وہ دل سے بھی اس راہ کو قبول کرسکا تھا جس پر وہ بظاہر گامزن دکھائی دیتا تھا؟ وہ جس مکتبہ فکر کی پیروی کر رہے تھے، کیا وہ گروہ خود راہ راست پر تھا؟ جو ان سوالات کے ذریعے مرحوم کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کررہے، ان کے علیحدہ ہی مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ کو اعتراض ہے کہ جنید جمشید کے ماضی یعنی موسیقی کی دنیا سے ان کے تعلق کا ذکر کیوں کیا جا رہا ہے تو کچھ اس لئے خفا ہیں کہ ان کو صرف مبلغ اسلام کے روپ میں ہی کیوں پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی اصل وجہ شہرت یعنی کہ گلوکاری کے شعبے میں ان کی خدمات کو اس طرح خراج تحسین نہیں پیش کیا جارہا ہے، جو کہ اس کا اصل حق ہے۔

جس کو اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ اس طیارے میں جنید جمشید جیسا نامور شخص تھا یا نہیں، وہ اس لئے برہم ہے کہ اظہار غم کرنے \"junaid-jamshed-2-1481117545\"والے طیارے میں سوار باقی 46 افراد کو کیوں بھول رہے ہیں جو موت کے اس سفر پر جنید جمشید کے ہمراہ ہی روانہ ہوئے۔

تنقید، تجزیوں، طنزیہ فقروں اور کاٹ دار تبصروں کے بیچ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس سانحے کی اہمیت کو انجانے میں، لاشعوری طور پر کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جنید جمشید کے ہمراہ ان کی چوتھی بیوی تھی یا چالیسویں، کیا میں اور آپ اس کیلئے جوابدہ ہیں؟ وہ دل سے دین کی جانب راغب ہوئے تھے یا پھر یہ تبلیغ ڈرامہ تھا، کیا اس بارے میں سچ جان جانے سے میری یا آپ کی دنیا و آخرت سنور جائے گی؟ کہاں لکھا ہے کہ پھولوں کے بستر پر میٹھی نیند کے مزے لیتے ، پرسکون حالت میں آنے والی موت ہی آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہوگی یا اور اذیت ناک موت آئندہ کے تکلیف دہ مراحل کی غماز؟

 ہر روز سڑکوں پر درجنوں افراد حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں تو کیا ہم ان سب کا غم اسی طرح مناتے ہیں جس طرح پیرس کی سڑک پراپنی ہی گاڑی میں کچلی گئی لیڈی ڈیانا کو یاد کرتے ہیں؟ نہیں ناں؟ بالکل یہی معاملہ جنید جمشید کا بھی ہے۔ کسی بھی مشہور شخصیت سے جذباتی وابستگی ایک قدرتی امر ہے اور اس کی موت پر دکھ کے اظہار کا مطلب ہرگز بھی دوسروں کی اہمیت کم کرنا نہیں ہوتا ہے، لیکن پاکستانیوں میں چھپی آنٹی ہر موقع کی طرح اس موقع پر بھی اعتراضات کا طوفان اٹھائے ہوئے ہے۔

یہ غم بہت بڑا ہے اوراس کی اوٹ میں پاکستان کی تاریخ میں رونما ہونے والا ایک ایسا واقعہ دب گیا ہے جسے عام حالات میں بہت توجہ ملتی، میڈیا بھی یقینی طور پر دو چار مذاکرے اس موضوع پر کرواتا اور عین ممکن ہے کہ کوئی جذباتی سیکولر جوش خطابت میں اپنے خلاف فیس بک مجاہدین کے ہاتھوں نیا محاذ کھلوا لیتا۔ دینی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو بھی ابھی اس جانب توجہ کا زیادہ موقع نہ ملا تھا کہ طیارے کا افسوسناک سانحہ رونما ہوگیا۔ یہ واقعہ ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے حکومتی فیصلے کا ہے۔

ویسے تو ڈاکٹر عبدالسلام کا نام لینے کیلئے ہی خاصی جرات کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ جس عقیدے کے مالک تھے، اس کے بارے میں

\"1979,

پاکستانیوں کی اکثریت دلیل، نہیں جذبات کی بنیاد پر بات کرنا زیادہ پسند کرتی ہے۔ رہ گئی بات ان کے اس دنیا سے رخصتی کے دو دہائی بعد انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی تو اس حوالے سے بھی پاکستانیوں کی قومی آنٹی جوش مار رہی ہے۔ اعتراض کو اور کچھ نہیں ملا تو ایک دانشور صاحب نے یہ فرما دیا کہ ربیع الاول میں ڈاکٹر سلام کو یہ اعزاز دیئے جانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ دانشور صاحب نے اس خاص مہینے کی نشاندہی نہیں کی جس میں (ان کی رائے کے مطابق) کافر، جہنمی اور فاسقوں کو کسی بھی اعزاز سے نوازنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ اس بارے میں رہنمائی فرما دیتے تو آئندہ حکومتِ پاکستان ایسے غیر اسلامی فعل سے بچ جاتی۔

کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح فلموں ، ڈراموں کے آخر میں یہ جلنے کڑھنے والی آنٹی ناکام، بھتیجوں کے سامنے شرمندہ ،نگاہیں جھکائے، سراپا نادم، اپنے بغض کا اعتراف کرتی اور معافی کی سوالی بنی ہوتی ہے، پاکستانیوں کی اکثریت بھی ذاتی زندگی میں ایسے ہی ناکام ہے، یہ اور بات ہے کہ ان کے اندر چھپی آنٹی، انہیں نادم، اپنی غلطیوں کا اعتراف اور بغض سے توبہ کی جرات نہیں کرنے دیتی۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments